کسی گاؤں میں چوری کی بہت وارداتیں ہورہی تھیں اور ہر چوری کا کھرا ایک میراثی کے گھر جاتا تھا۔ گاؤں والے جب بھی کھرا پکڑ کر میراثی کے گھر پہنچتے تو میراثی قرآن ہاتھ میں پکڑ کر قسمیں اٹھانا شروع کر دیتا اور کہتا: ”اللہ کی قسم جب سے پنگھوڑے(جھولے) سے، اترا ہوں، کبھی چوری نہیں کی اور نہ ہی اس چوری سے میرا تعلق واسطہ ہے۔ گاؤں والے اس کی قسم پر یقین کر کے، اعتبار کر کے اسے چھوڑ کر چلے جاتے اور چور کی تلاش میں سر گرداں ہو جاتے مگر کبھی بھی چور کو تلاش نہ کر پاتے۔ ایک بار گاؤں والوں نے چوری کی واردات کے بعد چور کا بھر پور طریقے سے پیچھا کیا۔ چور بھاگتا بھاگتا، ہانپتا ہوا، گرتا پڑتا سیدھا میراثی کے گھر میں گھس گیا۔ گاؤں والے بھی اس چور کے پیچھے میراثی کے گھر گھس گئے اور مال مسروقہ کے ساتھ میراثی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ جب میراثی کو دے دھنا دھن جوتے مارے جا رہے تھے اور ساتھ قسم خوری اور جھوٹ کے طعنے بھی دئیے جا رہے تھے۔ اس روز میراثی کی بھر پور دھلائی ہوئی۔ مار کھاتے کھاتے میراثی پھر چلایا ”قسم لے لو، میں نے آج تک جھوٹی قسم نہیں اٹھائی“۔ تمام گاؤں والے میراثی کی اس حرکت پر ایک بار پھر انگشت بدنداں ہو گئے۔
جب اس بات پر اسے مزید جوتے پڑنے لگے تو میراثی ہاتھ جوڑ کر بولا ”مولا خوش رکھے“ اللہ دی امان ”میری پوری بات سن لیں“۔…… پھر وہ گاؤں والوں کو اندر کمرے میں لے گیا جہاں ایک جھولا لٹکا ہوا تھا۔ جھولے کو دیکھ میراثی بولا ”میں جب بھی چوری کر کے آتا تو سیدھا اس جھولے میں لیٹ جاتا۔ جب گاؤں والے آتے تو میں جھولے سے اتر
کر قرآن اٹھا کر قسم اٹھاتا کہ ”جب سے جھولے سے اترا ہوں۔ میں نے چوری نہیں ہمارے سیاستدانوں، حکمرانوں، لیڈروں اور نام نہاد سیاسی نجات دہندوں کی ذہنی کیفیت بھی میراثی جیسی ہے کہ انہوں نے چوری نہیں کی۔ چور تو بس سابق حکومتیں ہی تھیں۔ مہنگائی کو پر لگ جائیں …… چور سابق حکومتیں …… بجلی مہنگی ہو چور سابق حکومتیں …… گیس مہنگی ہو چور سابق حکومتیں …… ادویات قوت خرید کو مات دے جائیں چور سابق حکومتیں …… چینی مہنگی ہو جائے چور سابق حکومتیں …… پٹرول ہر پندرہ دن بعد مہنگا ہو جائے چور سابق حکومتیں …… مافیا من مانی کرے اور اس ہاتھ ڈالنا مشکل ہو جائے چور سابق حکومتیں ……آف شور کمپنیوں کے خود مالک ہوں چور سابق حکومتیں …… یہاں بے بہا سہولیات اپنے حکومتی نمائندوں کو میسر ہوں …… چور سابق حکومتیں ……اپنے کیے دھرے کا بوجھ دوسروں پر اور چور سابق حکومتیں …… جاپان میں پچھلے 30 سال میں کوئی چوری نہیں ہوئی (یہ بات نہیں کہ وہاں مراثی نہیں ہیں) قتل نہیں ہوا، کوئی بھوکا نہیں سوتا، زلزلے کے وقت کیمپوں میں سب کچھ رکھ دیا جاتاہے کوئی ایک چھٹانک ضرورت سے زیادہ نہیں لیتا دیانتداری میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ سڑک پر ایک کروڑ پھینک دیں کوئی نہیں اٹھاتا، آپ کندھا ماریں سامنے والامعذرت کرتا دکھائی دے گا…… ترقی اور ٹیکنالوجی میں دنیا سے دس سال آگے جیتے ہیں …… کام اتنا کرتے ہیں کہ وزیراعظم ہاتھ جوڑ کے آرام کے مشورے دیتا ہے۔ سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کی ڈبیا جیب میں کھتے ہیں۔ صفائی اتنی سڑکوں میں منہ نظر آئے…… پابندی وقت اتنی کہ پانچ منٹ ٹرین لیٹ ہوئی تو پوری کمپنی بند کر دی جاتی ہے۔ اخلاق اتنا بلند آپ حیرت سے منہ تکتے رہ جائیں گے۔۔ اخلاص، مہمان نوازی اور ثقافت کمال کے درجے کو چھو رہی ہے۔محبت وفا اتنی کہ جاپانی بیوی پوجا کرنے لگ جائے اورآپ کو اتنا کھلائے کہ موٹے ہونے کا خوف طاری ہو جائے۔چاول کی فصل مرغوب غذا ہے۔ ایک دفعہ قحط پڑا تو تیس سال کا ایسا ذخیرہ کر لیا کہ دنیا سے چاول نایاب ہو گئے لیکن وہاں سے ختم نہیں ہوئے۔جاپانی جس کے ہو گے بس پتھر پر لکیر اسی کے رہے ……
نظام صحت ایسا کہ ٹوائلٹ آپکو جسم کی پوری ڈیٹیل دے دے……
دو نمبری اور بے ایمانی کا تصور محال اور جس ملک میں لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماعات میں جاتے ہوں جہاں لاکھوں لوگ دعوت دین کیلئے سفر کرتے ہوں ……جہاں سے لاکھوں لوگ بیت اللہ عمرہ اور حج کے لئے جاتے ہوں میلاد النبیؐ کے موقع پر ہر شہر میں جلوسوں میں لاکھوں لوگ شامل ہوں جس ملک میں ہر رات لاکھوں محافل میلاد اور دروس قرآن ہوتے ہوں۔ جس ملک میں یوم عاشور والے دن لاکھوں لوگ غم حسینؓ میں عزاداری کرتے ہوں۔ جس ملک میں عید اور جمعہ کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہوں۔جس ملک میں تسبیحات پڑھنے والے لاکھوں میں اور درود و سلام کی تعداد اربوں میں ہو۔وہ ملک ایمانداری میں دنیا میں 160ویں نمبر پر آئے اور کافروں کا جاپان ایمانداری میں نمبر ون ملک قرار پائے۔
تو سوال تو اٹھے گا کہ ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں!؟دراصل ہم عوام اپنے کو ہی دھوکہ دے ہیں۔ہم خود بے ایمان ہیں جو اپنے سروں پر بے ایمانوں کو مسلط کرتے ہیں ……ہم خود چور ہیں جو اپنی حیات کی باگ ڈور چوروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔