اب تو ایک ہی موضوع رہ گیا ہے مہنگائی، جس پر لکھا جا رہا ہے آئے روز یہ آکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ متعلقہ ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ وہ اس سوچ میں پڑے ہیں کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے کیونکہ مافیاز طاقتور ہیں مگر ریاست کو حرکت میں آنا ہی پڑے گا وگرنہ لوگ سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔ غربت بڑھ جائے گی، جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو جائے گا اور پھر اجتماعی کمزوری ہر سمت پھیل جائے گی جسے قوت دینے کے لیے کسی انقلاب کی ضرورت ہو گی مگر ہم ایسوں کی کون سنتا ہے۔
ہم حیران ہیں کہ حکومت موجودہ صورت حال کے حوالے سے طفل تسلی بھی نہیں دے رہی اسے صرف اقتدار کے بارے میں ہی سوچنا ہے۔ آخر اگلے دو برس میں وہ کیا کر سکتی ہے۔ چلئے اس کا کوئی پروگرام ہے بھی تو اسے سامنے لائے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کر دے مگر ایسا فی الحال کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کہتے ہیں بیورو کریسی تعاون نہیں کر رہی، کیوں نہیں کر رہی یہ بات سوچنے کی ہے۔ اس سے کام لینا اہل اقتدار پر منحصر ہوتا ہے مگر ان میں شاید صلاحیت کا فقدان ہے۔ ویسے وہ اپنے لیے اس سے ہر کام نکلوا لیتے ہیں مگر جب عوام کی بات ہوتی ہے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور بیوروکریسی پر سارا ملبہ ڈال دیا جاتاہے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیورو کریسی دودھ سے نہائی دھوئی ہے۔ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے عام آدمی سے ہمیشہ فاصلے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ اسے یہ زعم ہے کہ ملک کو وہی چلا رہی ہے مگر اس سے پوچھا جا سکتا ہے پھر آج جتنے مسائل در پیش ہیں وہ کیوں ہیں بہرحال اس وقت ہر آدمی
سہما ہوا ہے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنساہٹ کی لہر مسلسل اٹھ رہی ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہونے جا رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اب آگے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں، حیرانیاں ہی حیرانیاں ہیں مگر افسوس ذمہ داران اس حوالے سے کسی نشست کا اہتمام نہیں کر رہے اگر کر رہے ہیں تو پھر کیوں زندگی ایک دہکتا انگارا بنتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران نہ گھبرانے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ کب تک ایسا چلے گا…… کوئی ہے جو یہ یقین دلائے کہ آنے والے دنوں میں لوگ خوشحال ہو جائیں گے۔ انہیں انصاف ملے گا جو سستا اور آسان ہو گا شاید ایسا کوئی نہ کہہ سکے گا کیونکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے لیا گیا قرضہ واپس کرنا انتہائی مشکل ہو گا لہٰذا اسے اتارنے کے لیے پھر مزید قرضہ لینا ہو گا۔ ہمارا تو سر چکرا رہا ہے کہ کیسے جئیں گے کیسے اپنے بچوں کا مستقبل روشن کریں گے۔
یہاں ہم ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ اگر ہماری حکومتوں نے اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کرنا تو تو کیوں لوگوں کو بیوقوف بناتی ہیں کیوں ان کی سادگی کا مذاق اڑاتی ہیں۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ان حکمرانوں کے بیانات دیکھ لیں اور ان کی یقین دہانیاں دیکھ لیں لگے گا کہ بس اب ایک نیا سویرا طلوع ہونے والا ہے پھر لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے۔ انہیں کوئی غم ہو گا نہ کوئی فکر نجانے ہمارے اہل اقتدار اور اہل اختیارات کو کیوں عوام کی حالت پر ترس نہیں آتا وہ مسلسل سخت سے سخت فیصلے کرتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ذاتی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کے مطابق کھربوں ڈالر کی لوٹ کھسوٹ ہو چکی ہے جو یورپ کے بینکوں میں موجود ہے مگر ابھی تک وہ رقوم واپس نہیں لائی جا سکیں۔ یہاں کی بھی ابھی تک قومی خزانے میں نہیں آئی اور شور مچایا جا رہا ہے کہ اس نے اتنا ہڑپ کر لیا اس نے اتنا۔ سب رولا ہے کوئی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ سبھی ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں مل کر کھاتے ہیں، مل کر رہتے اور مل کر اپنی جائیدادیں بناتے ہیں۔ ہم لوگ ہیں کہ آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں دھڑا بندی کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے اب جب چوہتر برس بیت چکے ہیں عوام کو سمجھ آجانی چاہیے کہ حکمرانوں کا کیا رویہ ہے وہ اگر مل کر رہ سکتے ہی تو وہ کیوں نہیں۔ یہ لوگ ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن میں ان کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔ اب نیب ترمیم ہی کو لے لیں اس میں موجود سختی کو ختم کر دیا گیا ہے لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں عوامی راج قائم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے اس اشرافیہ نے مزید پریشان کرنا ہے اور عوام کو غلام بنا کر رکھنا ہے۔ یہ وہ حکمران نہیں جو عوام کے لیے سوچتے ہیں۔ عوام کے لیے سیاست کرتے ہیں یہ مصلحتوں کے مارے لوگ ہیں۔ سٹیٹس کو کے حامی ہیں۔ اپنے پیٹ بھرنا اور صرف عوامی خزانے پر ہاتھ صاف کرنا جانتے ہیں لہٰذا ان سے دن پھرنے کی امید نہیں کی جا سکتی جو کرنا ہے عوام کو خود آگے آ کر کرنا ہے، ان کے پیچھے چل چل کر پاؤں میں آبلے پڑ چکے ہیں مگر حالات تب بھی ٹھیک نہیں ہوئے بلکہ بد سے بد تر ہو رہے ہیں کہ کبھی پٹرول مہنگا، کبھی گھی، کبھی آٹا، کبھی بجلی اور کبھی گیس۔ بھلا حکومتیں ایسے کرتی ہیں ایسے اپنے عوام کو اذیتیں دیتی ہیں اہل ا قتدار ذرا سوچئے!