پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے جس کی بنا پر پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے قرض کی اگلی قسط ملنا تھی۔ پاکستان کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی پیشگی شرط قبول کرنے کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹ لینا جار اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈلو سے الگ الگ ملاقات کی مگر یہ دونوں ملاقاتیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔
اگر ہم ماضی کی بات کریں تو یہی عمران خان کہا کرتے تھے کہ میں اس دن خودکشی کر لوں گا جس دن مجھے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اب وہی عمران خان صاحب آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط مان رہے ہیں۔حکومت شاید بے خبر ہیں کہ ان کی اس شرط سے مہنگائی کا طوفان آچکا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روز گاری میں اضافہ ہو چکا ہے اشیا خورونوش سے لے بجلی اور پٹرولیم کی قیمتیں اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت سے جو عام آدمی کو امیدیں تھیں ابھی تک تو یہ حکومت اس جمہوری ثمرات کا عوام کی دہلیز تک نہیں پہنچے۔ ملک اس وقت بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے۔مہنگائی کے خاتمے کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں۔کل پورے ملک میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کے خلاف احتجاج ہوا مگر حکمرانوں پر کوئی اثر نہ ہوا، اب عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ ٹریڈ یونین،مزدور لیڈر،سیاسی لیڈر اور عوامی لیڈر اب عوام کے لئے سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ میڈیا عوام کے شعور کی آنچ کو تیز کر دیتا ہے عوام کی آواز ایوان اور حکمرانوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر حکومت ان کی بھی آواز سننے کو تیار نہیں،ایسا
محسوس ہو رہا ہے یہ سیاسی و جمہوری حکومت عوام کا تماشا دیکھ رہی ہے کیونکہ اس حکومت کو لگتا ہے کہ لوگ مہنگائی کو انجوائے کر رہے ہیں۔
حکومتی وزیر کہتے ہیں کہ نواز شریف نے 45%مہنگے بجلی گھر لگا کر قومی جرم کیا مگر دوسری جانب گھی، کوکنگ آئل، صابن، شربت،نوڈلز سمیت متعدد اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا بندہ ان سے پوچھے کیا ان اشیاء کے بھی نواز شریف نے معاہدے کئے تھے؟ ٹرانسپورٹروں نے اپنی مرضی سے ایک شہر سے دوسرے شہر کے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے۔لاری اڈوں پر مسافروں اور مالکان کے درمیان جھگڑے ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مرکز سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے لیکن وفاقی اپنی صوبائی حکومتوں کی مدد سے بھی مہنگائی بلکہ بے جا مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی ہے اسی طرح وفاقی حکومت نے اپنی دو صوبائی حکومتوں کی جانب سے نظام کو کمزور کرنے پر بھی جوابدہ نہیں بنایا۔ صوبائی حکومتیں اپنے ضلعی سطح کے نظام سے مارکیٹ کمیٹیاں،پرائس کنٹرول کمیٹیاں، نگرانی کے موثر نظام اور جو لوگ بھی ناجائز مہنگائی کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی کوئی قدم دیکھنے کو نہیں ملتا۔ میں یہاں پر صرف آٹے کی مثال دوں گی کہ آٹا پنجاب کے ہر شہر میں دکاندار اپنے ریٹ پر فروخت کر رہے ہیں جو پنجاب کے انتظامی امور پر سوالیہ نشان ہے، 20کلو آٹے کا تھیلا لاہور میں 1100،گوجرانوالہ میں 1300، ملتان میں 1350، اور فیصل آباد میں 1400روپے تک پہنچ گیا ہے شہری نے قیمت کنٹرول نہ ہونے کو پنجاب حکومت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ پرائس کنٹرول اتھارٹی اور گندم کا ایک جیسا کوٹہ جاری کرنے پالیسی بھی ناکامی سے دو چار نظر آرہی ہے۔ صوبے بھر کی فلور ملز کو یومیہ 19میٹرک ٹن گندم کا اجرا ہونے کے باوجود بھی قیمتیں ایک جیسی نہیں۔ آٹا کی یکساں قیمت کا نہ ہونا یہ سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس کے برعکس حکومتی سطح پر بچت پر مبنی حکمرانی نظام بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ان سب کے باوجود پنجاب کی حکومت صوبائی وزراء، مشیروں اور معاونین کے لیے 37 نئی گاڑیوں کی خریداری کا منصوبہ بنا رہی ہے،یہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایم پی ایز کو سوائے اپنے استحقاق، ترقیاتی فنڈز اور سفارشی بھرتیاں کرانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی کی صورتحال غیر معمولی ہے اور اس کے حل کے لئے بھی غیر معمولی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ قومی اور صوبائی اراکین کی تنخواہیں ختم کر دیں کیونکہ ان لوگوں کی تنخواہ خزانے پر بوجھ ہے اور یہ لوگ تو پہلے ہی کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ ان لوگوں کو تنخواہ کی کوئی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی سطح پرعوامی ترجیحات کاتعین کرے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ عوام دوست پالیسی بنائے جس سے وسائل اور روز گار کے یکساں مواقع مل سکیں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کرپشن اور بد عنوانی کا غیر موثر نظام ہے وہ ختم ہو سکے۔ عمران خان اگر اگلا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں تو ان کو اب سخت فیصلے کرنا ہوں گے اس نظام کی سرجری یا آپریشن کرنا ہو گا۔ ان کو اس آپریشن میں اپنے وزراء بھی قربان کرنا ہوں گے اگر خان صاحب ایسا نہیں کریں گے تو پھر اس کے بغیر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا اور پی ٹی آئی کے لئے اگلا الیکشن جیتنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے ابھی وقت ہے مہنگائی کے خلاف کچھ کر لیں ورنہ اگلے الیکشن میں عوام آپ کی جماعت کی سرجری کر دے گی۔