پشاور: خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی اراکین کی غیرحاضریوں نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، 2016-17 ء کے پارلیمانی سال کے چھ سیشنز پرمشتمل56 اجلاسوں میں کسی ایک حکومتی رکن نے تمام اجلاس میں اپنی حاضری یقینی نہیں بنائی تاہم اپوزیشن جماعت جے یوآئی کی رکن عظمیٰ خان واحد ممبر ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 55 اجلاسوں میں شرکت اورصرف ایک اجلاس سے غیرحاضر رہیں۔
صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کا پانچواں پارلیمانی سال جاری ہے جبکہ 2016-17ء کے چوتھے پارلیمانی سال کے دوران خیبرپختونخوااسمبلی کے چھ سیشنز منعقد ہوچکے ہیں سیشن نمبر19،20،21،22،23،24یعنی چھ سیشنز پرمشتمل56 صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران کسی حکومتی رکن نے تمام اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت نہیں کی، البتہ ابتدائی دو سالوں میں حکومتی اراکین کی حاضری قدرے بہتر رہی ،حاضری ریکارڈ کے مطابق چوتھے پارلیمانی سال کے دوران حکومت کی طرف سے مہرتاج روغانی نے سب سے زیادہ 52اجلاسوں میں شرکت، تین میں غیرحاضر اور ایک اجلاس میں عدم شرکت کیلئے چھٹی کی درخواست دی۔
حکومتی بینچوں سے صوابی سے منتخب محمد علی ترکئی نے سب سے کم یعنی 8 اجلاسوں میں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پی کے57 مانسہرہ سے منتخب قومی وطن پارٹی کے ابرارحسین نے 56 میں سے صرف7 اجلاسوں میں ہی اپنی حاضری یقینی بنائی ۔اسی طرح صوبائی کابینہ میں شامل وزراء، مشیر،معاونین خصوصی ، پارلیمانی سیکرٹریزاور ایم پی ایز میں سے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے 16بار ، اسد قیصر35، سینئروزیر شہرام ترکئی نے32 بار،شاہ فرمان نے40، اکرام اللہ گنڈاپور21، محمودخان 35، علی امین18، جمشیدالدین33، مشتاق احمدغنی 35، اکبرایوب35، اشتیاق ارمڑ 24، محب اللہ خان30، ملک قاسم خان 29، شکیل احمد22، عبیداللہ مایار18، بی بی فوزیہ28، نادیہ شیر19، افتخارمشوانی16، فیصل زمان17، عبدالحق خان15اور سمیع اللہ نے14دفعہ اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کی اسی طرح باقی ایم پی ایز کی حاضری بھی نہ ہونے کے برابرہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے تقریباًہراجلاس میں اپوزیشن حکومتی اراکین کی عدم دلچسپی اورغیرحاضری کا رونا روتی ہے اوراس کے خلاف کئی بار اپوزیشن اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ بھی کر چکی ہے یہی نہیں حکومتی اراکین کی عدم حاضری کے باعث متعددباراسمبلی اجلاس کورم کی نذرہوچکاہے. یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکرودپٹی سپیکر اس وقت ڈیڑھ لاکھ جبکہ ایم پی ایز 80 ہزارکے قریب ماہانہ بنیادی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ باقی مراعات اس کے علاوہ ہیں.
علاوہ ازیں اسمبلی کے ایک اجلاس پر آٹھ سے دس لاکھ روپے خرچہ آتاہے لیکن دوسری جانب حکومتی اراکین کی اسمبلی میں حاضری کی صورتحال یہ ہے کہ وہ ٹی اے /ڈی اے اوردیگرالاؤنسزکے حصول کیلئے حاضری لگانے کے بعد ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کے بجائے اسمبلی ہال سے غائب ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسمبلی اجلاس کے انعقادکیلئے حکومت ہی ریکوزیشن جمع کراتی ہے ایسا موقع کم ہی آتاہے کہ جب اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیاجاتا ہو۔