کراچی:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ ہوتا ہے تو فیصلہ طویل ہوتا ہے جبکہ سچی اور اصولی بات کم لفظوں میں کہی جاتی ہے، 950 پیراگراف پر مشتمل ایک فیصلہ سنایا گیا جس پر شرمندگی ہوتی ہے، اس فیصلے میں وزیراعظم کو سزائے موت سنائی گئی، ماضی یاد رکھنے سے غلطیاں نہیں دہرائی جاتیں۔
تفصیلات کے مطابق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کا کام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور ملک کا ہر شہری چاہتا ہے کہ عدلیہ آزاد ہو، وکلاءکا لہو پاکستان کا تحفظ کرتا ہے، جب ہم نے آئین کا دامن چھوڑا تو ملک دو لخت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مولوی تمیز الدین ایک بنگالی تھے، پارلیمان ختم ہوئی تو کوئی دنگا فساد نہیں ہوا بلکہ مولوی تمیز الدین نے سیدھے عدالت سے رجوع کیا اور حکم لیا، ہومی نوسیل والا تمیز الدین کیس کے پارسی وکیل تھے، اس وقت لوگوں میں کوئی تفریق نہیں تھی، مجھے تمیز الدین کیس میں سات صفحے کا فیصلہ سمجھ آ گیا لیکن آج کے لمبے فیصلے سمجھنے سے قاصر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اصولوں پر سمجھوتہ ہوتا ہے تو فیصلہ طویل ہوتا ہے جبکہ سچی اور اصولی بات کم لفظوں میں کہی جاتی ہے، 950 پیراگراف پر مشتمل ایک فیصلہ تھا جس پر شرمندگی ہوتی ہے، اس فیصلے میں وزیر اعظم کو سزائے موت سنائی گئی، تاریخ یاد رکھنے سے غلطیاں نہیں دہرائی جاتیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ پاکستان میں کنٹینر ازم پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا لیکن اس سے پہلے کسی بھی تحریک کو کنٹینر سے نہیں روکا جاسکتا تھا، 2007 کی تحریک میں سب سے زیادہ کراچی نے قربانی دی، آئین ساز اسمبلی توڑی گئی تو چیف کورٹ اب کی سندھ ہائیکورٹ نے خلاف فیصلہ دیا اداروں پر تنقید نہ کریں شخصیات پر تنقید کریں۔