یہ شاید1985کی بات ہے ہمارے ایک عزیز کراچی میں OMI ہسپتال کی طرف سے گارڈن روڈ کی جانب آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کو ٹریفک پولیس اہلکار نے روک لیا۔ ان کے پاس لائسنس تھا نہ ہی گاڑی کے کاغذات۔ اس لئے چالان تو ہو نہیں سکتا تھا لہٰذا پولیس اہلکار گاڑی میں بیٹھ گیا اور کہا کہ گاڑی کو گارڈن تھانے لے چلو۔ OMIسے گارڈن تھانہ کم و بیش ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ہمارے عزیز غصے میں آ گئے اور پولیس اہلکار کو دھمکیاں دینے لگے لیکن پولیس اہلکار ان دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوا۔ اب جیسے ہی گاڑی گارڈن روڈ کی طرف مڑی تو انھوں نے گاڑی کو ایک طرف فٹ پاتھ کے ساتھ روکا اور گاڑی کے اندر ہی جھک کر اس پولیس اہلکار کے پاؤں پکڑ کر معافی تلافی کی التجائیں کرنے لگے خیر چند ہی منٹوں میں لے دے کر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ سرد موسم میں سیاست کے انتہائی گرم درجہ حرارت میں ہمیں 37سال پرانا واقعہ کیوں یاد آ گیا تو جناب آپ گارڈن تھانہ کو نئے آرمی چیف کی تعیناتی سمجھ لیں اور ہمارے عزیز کی بھڑکیں اور دھمکیاں خانِ خاناں خانِ اعظم عمران خان کے مطالبات سمجھ لیں اور ان کی معافیاں اور ترلے منتیں خان صاحب کے اپنے مطالبات پر یو ٹرن سمجھ لیں تو آپ کو یقینا سمجھ آ جائے گی کہ ہمیں یہ واقعہ کیوں یاد آیا اور ہم اسے کیوں قارئین کے بہترین ذوق کی نذر کر رہے ہیں۔خان صاحب اپنے مطالبات کے حق میں گذشتہ آٹھ ماہ سے ہمارے عزیز کی طرح ہی بھڑکیں بھی مار رہے تھے اور جس حد تک ممکن تھا دھمکیاں بھی دے رہے اور جیسے ہی تھانہ کی جانب مڑنے پر تھانہ قریب آیا تو انھوں نے یو ٹرن لیا بعینہ اسی طرح آرمی چیف کی تعیناتی کے دن قریب آتے جا رہے ہیں خان صاحب بھی اپنے ہر مطابلہ پر یو ٹرن لیتے جا رہے ہیں۔ اندازہ تو کریں کہ لانگ مارچ کا نام ہی کیسا انقلابی رکھا تھا ”حقیقی آزادی مارچ“ لیکن امریکن اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے پہلے تو سازشی بیانیہ پر نہ صرف یہ کہ یو ٹرن لیا بلکہ جس روس کے دورے کو اپنے لئے اعزاز بنا کر ہر جلسہ میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اس کے متعلق بھی کہا کہ یو کرین پر حملہ سے پہلے روس کا دورہ سنگین غلطی تھی۔ اس کے بعد جلد انتخابات پر یہ کہہ کر مطالبہ سے دستبردار ہو گئے کہ سال بعد بھی انتخاب ہم ہی جیتے گے اور پھر یہ کہہ کر واپسی کا ٹکٹ کٹا بھی لیا اور سب کو دکھا بھی دیا کہ ہمیں آرمی چیف کی تعیناتی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے حکومت جس کو چاہے آرمی چیف تعینات کرے۔
زمین ِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اگر سازشی بیانیہ کا بھی دھڑن تختہ کرنا تھا، جلد انتخابات کے مطالبات سے بھی دستبردار ہونا تھا اور آرمی چیف کی تعیناتی کہ جس پر سیانے کہتے کہ سارا
کھڑاک ہی اس کے لئے تھا اور میدان جنگ میں گھوڑے دوڑائے ہی اس لئے جا رہے تھے کہ آرمی چیف اپنی مرضی کا آ جائے اور اس کے لئے آرمی چیف کے عہدے کو متنازع بنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تو ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں اور جنگ کے میدان میں تو فریق مخالف نے اپنے گھوڑے ابھی ٹھیک طریقہ سے دوڑانا شروع بھی نہیں کئے کہ آپ نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیئے حالانکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کچھ بھائی لوگوں نے خان صاحب کو قائد انقلاب کے طور پر پیش کر کے میدان جنگ کا ایسا منظر نامہ پیش کیا تھا کہ ایسے لگ رہا تھا کہ خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان چھتیس کا آنکڑہ ہے اور جیت کے علاوہ خان صاحب کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حقیقی آزادی مارچ شام چار ساڑھے چار بجے کسی ایک شہر میں ایک محدود تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور خان صاحب کے فن خطابت سے محظوظ ہو کر گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ بہرحال ہفتہ کو خان صاحب اس حقیقی آزادی مارچ کہ جس کا ابھی تک اس دھرتی پر تو کوئی وجود نہیں ہے اس کے راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
اصل میں ہوا یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران وفاق اور پنجاب میں آئین کو جس طرح ناک کی موم بنا کر تماشے کئے گئے تو کچھ لوگ یہ سمجھنے لگے عمران خان سے زیادہ زیرک سیاستدان کوئی اور ہے ہی نہیں اور یہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں جو یہ کہہ دیں وہی پتھر کی لکیر کی مانند حرف آخر ہوتا ہے لیکن قدرت کا قانون ہے کہ ہر فرعونِ را موسیٰ و ہر نمرودے را پشہ ہر جگہ سیر پر سوا سیر تو ہوتا ہے۔ خان صاحب جب جنرل باجوہ کو اگلے انتخابات تک توسیع دینے کی بات کر رہے تھے تو اس مسئلہ پر اندرون خانہ بات چیت بھی چل رہی تھی اور حکومت یہ تاثر دے رہی تھی کہ اس پر بات ہو سکتی ہے اور اس کے لئے حکومت نے باقاعدہ کمیٹی کو یہ ہدایات بھی دے رکھی تھی کہ وہ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے لئے ڈرافٹ بنائے۔ اس سے ایک جانب عمران خان اور دوسری جانب وہ قوتیں کہ جن کی یہی خواہش تھی انھیں امید پر رکھا گیا۔ اب اس کمیٹی کا اجلاس گیارہ نومبر کو ہونا تھا لیکن وہ اجلاس نہیں ہوا۔ آرمی چیف نے تو پہلے ہی غیر مبہم انداز میں واضح کر دیا تھا کہ وہ توسیع نہیں چاہتے اسی لئے انھوں نے بھی الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں اور پھر اب وقت بھی نہیں تھا کہ اس مسئلہ پر مزید کوئی اگر مگر ہوتی۔ اسی حوالے سے ایک انگلش اخبار میں خبر بھی چھپی اور عمران خان بھی اس کے متعلق ایک سے زائد بار اپنی تقاریر اور انٹریوز میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ حکومت آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر رہی ہے۔ جو خبر شائع ہوئی اس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تعین کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کے لئے قانون سازی کرنے جا رہی ہے۔ یہ خبر بے بنیاد تھی اور سب سے اہم بات کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ قانون جیسا بھی ہو وزیر اعظم کبھی آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین نہیں کرتا بلکہ صحیح یا غلط ہمیشہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کی مدت کا تعین کیا ہے۔ امید ہے کہ 21نومبر تک وزارت دفاع کو نئے آرمی چیف کی سمری مل جائے گی اور وہ اسے بنا کسی تاخیر کے وزیر اعظم ہاؤس بھیج دے گی۔سوال یہ ہے کہ جب خان صاحب نے سازشی بیانیہ، قبل از وقت انتخابات اور آرمی چیف کی تعیناتی پر یو ٹرن ہی لینے تھے تو اتنی دھول اڑانے کی کیا ضرورت تھی۔ گو کہ خان صاحب ان تینوں مسائل پر یو ٹرن لے چکے ہیں لیکن ہم کوئی بہت زیادہ خوش فہم نہیں ہیں اس لئے ہمیں اب بھی خدشہ ہے کہ عین موقع پر خان صاحب عدم اعتماد کی تحریک پر قاسم سوری جیسا کوئی انتہائی منفی اور آئین کے بر خلاف قدم اٹھا سکتے ہیں جو ملک کے لئے تباہ کن مضمرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لئے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ خان صاحب ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہیں اس لئے کہ ان کے پاس پنجاب سے لے کر گلگت بلتستان تک وسیع میدان تو ہے لیکن اس میدان میں دوڑانے کے لئے ان کے پاس گھوڑے نہیں ہیں۔