اگلے دن قبلہ محمد صادق صاحب کے پاس نیاز مندی کے لیے حاضری دی۔ محمد صادق صاحب تنولی پٹھان ہیں اور اپنے نام کے ساتھ خان کا لفظ اس لیے نہیں لکھتے کہ خان بولنے سے گردن میں تفاخر کا ایک غیر محسوس جھٹکا آتا ہے۔ عصر حاضر کی صاحب تصوف و کشف ہستی ہیں۔ بعض لوگ تو گردن پہ گوڈا رکھ کر خوشامد یا تعریف کراتے ہیں جبکہ قبلہ کے دو لفظ ہی چہرہ زرد کر دیتے ہیں حالانکہ سرکاری نوکری تو نام ہی خوشامد و تابعداری کا ہے۔ ایف بی آر میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے چیف کلکٹر ہیں آج کل ڈائریکٹر جنرل آئی پی آر ای ہیں روحانیت کی تسکین روحانی شخصیت کی محفل میں ہی ہوا کرتی ہے۔ تصوف، قرب الٰہی، مستجاب الدعا، بصیرت و بصارت (صاحب نظر)، علم و حلم، حکمت و دانائی پر کسی خاص طبقے یا فکر کے لوگوں کا قبضہ نہیں۔ ادیان الٰہی کے پیرو کار اور انسانیت کو طرز زندگی بنانے والے ہی ان خصوصیات و برکات سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ میں دفتر میں داخل ہوا تو قبلہ صادق صاحب ایک لیٹر پیڈ پر حضرت عبدالقادر بیدلؒ ابوالمعانی جنہوں نے 8 بادشاہوں شاہجہاں سے محمد شاہ رنگیلا تک دور دیکھا اور تاج شاہی کی ہوس میں لڑی جانے والی جنگوں کی تباہ کاریوں کے چشم دید گواہ تھے جن کے علامہ اقبال بھی مداح تھے اور مرشد کامل کہتے تھے۔ فرماتے ہیں ”بیدل اپنے طرز کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی“، غالبؒ نے ”بحر بیکراں“ اور ”محیط بے ساحل“ کہا، مزید کہا کہ طرز بیدل میں ریختہ کہنا اسد اللہ خاں قیامت ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:
ترک آرزو کر دم رنج ہستی آسان شد
سوخت پر فشانہا کایں قفس گلستان شد
”میں نے آرزوؤں کے پر جلا دیئے لہٰذا یہ پنجرا میرے لیے گلستان بن گیا“ (مفہوم)۔
اس دن اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزاد محمود اختر کی ریٹائرمنٹ بھی تھی۔ قبلہ صادق صاحب کے مزاج کا خاصہ ہے کہ وہ سپاہی کی ریٹائرمنٹ بھی ہو تو اس کو بھرپور محبت، شفقت اور پروٹوکول سے رخصت کرتے ہیں۔ شہزاد محمود اختر نے 40 سال کسٹم میں نوکری کی اس دن شکرانے کے آنسوؤں سے ان کا چہرہ تر ہو گیا۔ اس موقع پر سٹاف کے دیگر افسران و ماتحت بھی موجود تھے جن میں جناب حسن فرید ایڈیشنل ڈائریکٹر، خادم حسین بٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، انتظار محمد خان پرسنل اسسٹنٹ ٹو ڈائریکٹر جنرل، سلمان حسین، نعمان چشتی ڈی ای او، اویس بھائی اور حسن صادق خان بھی موجود تھے۔ تقریب کے بعد دوبارہ دفتر میں آ گئے، ظاہر ہے روحانیت،
انسانیت اور صوفی ازم ہی موضوع تھا۔ قبلہ محمد صادق صاحب کو آئین و قوانین پاکستان کے علاوہ قرآن عظیم کا ترجمہ تشریح ازبر ہے۔ جامع الازہر کے فارغ التحصیل ہیں دیگر الہامی کتابوں پر بھی سیر حاصل گفتگو سننے کا موقع ملتا ہے۔ قبلہ کے پاس عبرانی زبان کے نسخے بھی موجود ہیں، صوفیا کا کلام بھی ازبر ہے، حضرت میاں محمد بخشؒ، بھلے شاہ، بابا فرید سے خصوصی رغبت رکھتے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومیؒ کا تذکرہ ہو تو پھر وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا اور موضوع سے باہر آنا ممکن نہیں رہتا۔ گفتگو کے دوران جب تذکرہ کیکر تے انگور کا ہوا تو انسانی تاریخ کے دریچے ایسے کھلے کہ ایک سے دوسرا کھلتا ہی چلا گیا۔ خنجر کھانے کے بعد سیزر نے کہا تھا ”Brutus you too“ بروٹس تم بھی اور یہ پھر قبلہ نے ہی بتایا کہ لوگ شیکسپیئر کے ڈرامے کا مکالمہ یہاں پر ختم کرتے ہیں جبکہ سیزر نے کہا ”پھر مجھے مر ہی جانا چاہئے“۔ یہ تو ایک ڈرامہ تھا۔ کربلا کی تاریخ ہو یا شاہ شمش تبریزی کا قتل، دنیا بھر کی جنگیں، جدال و قتال غور کریں گے تو کیکر اور انگور کا ہی قصہ نکلے گا۔ ہارون اور مامون الرشید کے خاندان ہوں یا تاریخ حاضر کے برصغیر کے تاریخ ساز سیاسی خانوادے، اجتماعی تعلقات ہوں یا انفرادی دوستیاں ایسے فنکار لوگ ہیں کہ پوری پوری زندگی پتہ نہیں چلنے دیتے کہ انسانی وجود کے اندر کس قدر درندگی، غلاظت، بدخواہی، حسد، مفاد اور چھوٹا پن لیے پھر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یورپ امریکہ کے معاشرے اس سے مبرا ہیں چونکہ نظام ضامن ہے لہٰذا نسبتاً کم ہے۔ یوں تو کیکر اور انگور میں کوئی مناسبت اور رشتہ داری نہیں۔ مگر میاں محمد بخشؒ نے
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
کِکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
کیکر اور انگور کا جیسا کہ پہلے کہا یوں تو کوئی میل نہیں، مگر میاں صاحب نے بطور استعارہ استعمال کر کے اس میں انسانوں کے بے جوڑ، بے اختیار ملاپ کے نتیجے میں روحوں کے زخمی ہونے کی داستان پرو دی۔ میرے خیال سے صوفی شاعر نے ذات، برادری، قبیلے کے حوالے سے نیچ کسی کو نہیں کہا یہاں پر مراد انسانی فطرت اور جبلت کی بات ہے۔ جب مختلف فطرتوں کے لوگ سنگم کے بعد جدا ہوتے ہیں تو شعیب بن عزیز کا شعر سناتے پھرتے ہیں:
جس کو سب دیکھتے ہیں وحشت سے
یہ مری آستین سے نکلا ہے
اب معاشرت کے تعلقات میں مختلف شہروں، قبیلوں سے تعلق رکھنے والے اگر کسی ایک محکمے، کاروباری شعبے یا ادارے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں، جب آنکھ کھلتی ہے تو انگور کو علم ہوتا ہے کہ یہ تو کیکر تھا جس نے مجھے چھلنی کر دیا۔ بس کیکر کی فنکاری یہ کہ وہ انگور (فطرتوں اور اصلیتوں کی بات ہے) کو پتہ نہیں چلنے دیتا کہ اس کے کانٹوں نے انگور کی جلد میں پیوست ہو کر سارا رس نکال دیا ہوا ہے۔ آرمینیا کے شاعر کا رہ رہ کر شعر یاد آتا ہے واعظ نصیحت کر رہا تھا اور بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا، گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں۔ یہی حالت انصاف، انتظام حتیٰ کہ واعظ کرنے والوں کی ہے۔ ایسے حالات اور قحط الفت و وفا، بندہ سوچتا ہے کہ وہی اچھے ہیں جنہیں دنیا کو خیرباد کہے برسہا برس بیت گئے۔ ہماری معاشرت نے تو ات اٹھائی ہوئی ہے جن دو لوگوں دو گروپوں کو دیکھیں چند سال بعد ایک دوسرے کو انگور اور کیکر قرار دیتے ہوئے دکھائی اور سنائی دیں گے۔ آپ کو بڑے نامور قبیلوں، خاندانوں میں عہدوں پر انتہائی غلیظ اور چھوٹے لوگ مل جائیں گے اور چھوٹے کمزور قبیلوں، خاندانوں میں انسانیت کے حوالے سے بڑے انسان مل جائیں گے۔ یہی فطرت اور حقیقی وراثت ہے۔ بچھو نمازی کو اس لیے ڈنک نہیں مارتا کہ اس کی نمازی سے دشمنی ہے اور نہ ہی نمازی بچھو کو اس لیے پانی سے بچاتا ہے کہ وہ اس کے قبیلے، مسلک یا خاندان سے ہے دراصل دونوں کی اپنی اپنی فطرت ہے۔ جیسے کیکر اور انگور کی فطرتیں برعکس ہیں۔ معاشرت کا نظام اگر دونوں کو اکٹھا کر دے تو پھر انگور کا ہر گچھا زخمی ہوا کرتا ہے۔ یہی نصیب ہے، یہی تقدیر ہے اور یہی معاشرت ہے، یہی فطرت ہے کہیں زیادہ کہیں کم مگر یہ سرحدیں نہیں رکھتی۔ اگر حضرت غالب سے پوچھیں گے تو وہ صبر کے ساتھ کہہ دیں گے۔
ہم کو ہے ان سے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
میرے والد صاحب فرمایا کرتے
کمبلی جوں جوں پج دی اے
بھاری ہوندی جاندی اے
لوگ یونہی کیکر کی طرح انگوروں کو زخمی کرتے رہیں کہ یہی ان کا پیشہ اور فطرت ٹھہری۔ گلزار صاحب بھلے کہے جائیں۔
اتنا کیوں سکھائے جا رہی ہو زندگی ہمیں
کونسی صدیاں گزارنی ہیں یہاں
مگر لوگ سمجھائیں گے۔
آخر میں حضرت علیؓ جن کی ہستی سے فقر وفکر کے تمام راستے نکلتے ہیں، فرماتے ہیں۔ ”لوگوں سے نا امیدی آزادی ہے“۔ انگوروں سے درخواست ہے زندگی سامنے بھی لے آئے تو کیکروں سے پرہیز کریں۔