پہلا عرس حضرت علامہ خادم حسین رضوی ؒ

10:38 AM, 19 Nov, 2021

علامہ حضرت خادم حسین رضوی کو اس دنیا سے گئے ایک سال ہو گیا ہے پچھلے سال 19نومبر کو وہ اس دنیا فانی سے تو رخصت ہو گئے مگر ان کا کام اور فیض پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ ان کے فیض کا عالم یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا کے لبرل ان کا نام سنتے ہی گھبرا جاتے ہیں کیونکہ اس صدی میں جس طرح ناموس رسالت ﷺکا پہرہ اُنھوں نے دیا مجھے ان جیسا کوئی اور دکھائی نہیں دیا۔ ایک اچھے لکھاری کا کام ہوتا ہے کہ وہ سچائی بیان کرے چاہیے وہ سچائی کتنی ہی کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔ 

 علامہ صاحب 1966میں تکہ توت میں پیدا ہوئے ،اُنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حاصل کی اور وہی سے قرآن حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی۔جس کے بعد وہ لاہور آگئے اورجامعہ مسجد وزیر خان میں قاری منظور حسین کے پاس آگئے اور انھوں نے علامہ صاحب کو جامعہ نظامیہ رضویہ میںداخل کرا دیا اور وہی سے درس نظامی کی تکمیل کی۔1988میں دورہ حدیث مکمل ہوا اور دستار فضلیت عطا کی گئی۔اس ددران انہوں نے بہت سے اساتذہ اکرام سے تعلیم حاصل کی لیکن چھ اساتذہ کے نام ان کے بیانات میں نمایاں رہے۔ جن میں مفتی عبدالقیوم،مفتی محمد عبد اللطیف ،علامہ محمد رشید،علامہ عبد الحکیم ،علامہ حافظ عبدالستاراور علامہ محمد صدیق ہزاروی شامل ہیں۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے۔ ان کو اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے ہر بیان میں علامہ اقبال کے فارسی کے اشعارکی تشریح کرتے نظر آتے تھے۔ 

حکومت پاکستان نے علامہ خادم حسین رضوی پر کئی بار کئی دہشت گردی کے مقدمات بھی بنائے اور 

کئی بار ان کو گرفتار بھی کیا۔ مغربی لابی اور قادیانی ان کے بہت خلاف تھے۔ ان پر کئی بار بہت پریشر بھی آیا کہ وہ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹ جائیں تو ان کو بہت کچھ مل سکتا ہے لیکن یہ مرد قلندر اپنے موقف سے ایک قدم تو دور کی بات ہے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

2009میںایک ٹریفک حادثے میں وہ معذور ہوگئے لیکن اُنھوں نے اس معذوری کو بھی اپنی سفر اور مشن میں رکاوٹ بننے نہیں دیا۔علامہ صاحب سیاست میں آنے سے پہلے محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب تھے لیکن ممتاز قادری کی سزا پر عملددرآمد کے بعد اُنھوں نے کھل کر حکومت وقت پر تنقید کی ۔جس کی بنا پر محکمہ اوقاف نے ان کو ملازمت سے نکال دیا۔علامہ صاحب نے سب سے پہلے 2006میں جیل کاٹی ۔ مگر سرکاری پلیٹ فارم سے ناموس رسالت ﷺ پر پہرہ دیتے رہے۔ 2017 کو انھوںنے تحریک لبیک کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا مقصد یہ تھا کہ وہ سیاست میں آئی اسلام کی خدمت کر سکیں۔ اور اسی سال انھوں دھرنے دینے کا بھی اعلان کیا اور دھرنا بھی دیا جس میں ان کے کئی کارکن شہید بھی ہوئے۔ اس دھرنے کے بعد ان کی جماعت کو سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل ہو گئی۔ ان وقت کی ن لیگ کو ایسا لگتا تھا کہ شاید ٹی ایل پی کو فوج کی حمایت حاصل ہے مگر ایسا کچھ نہیں تھا،

2019میں جب انھوں نے فرانس کے سفیر کے خلاف دھرنا دیا تو اُس پی ٹی آئی کی حکومت تھی ۔ یہ بات بہت قابل غور ہے کہ ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود علامہ صاحب نے حکومت کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کر دیں جن کا پی ٹی آئی کی حکومت کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران علامہ صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی اور اور وہ 19نومبر کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن چند ماہ گزر جانے کے بعد ان کی مشن کو جاری رکھنے کے لئے ان کے بیٹے مولانا سعد رضوی نے علم بلند کیا تو حکومت وقت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا اور ان کے عہدے دار اور کارکنوں کو گرفتار کرناشروع کر دیا۔ٹی ایل پی نے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کیا ،لانگ مارچ ابھی وزیر آباد ہی پہنچا تھا کہ حکومت کو ان سے مذاکرات اور ان کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد عدالت پہلے ہی حکم دے چکی تھی کہ ان کون رہا کیا جائے مگر اس کے باوجود ان کو رہا نہیں کیا گیا۔ جس پر تحریک لبیک نے لانگ مارچ کا اعلان کیا اب پنجاب حکومت نے ان کی رہائی کا حکم دے دیا مگر اس پر آج کل میں عملدرآمد ہو جائے گا کیونکہ ان کے باقی کارکن رہا ہوچکے ہیں اور اب یہ جماعت کالعدم بھی نہیں رہی۔ 

آج حضرت علامہ خادم حسین (رح) کی دفات کو ایک سال ہو گیا ہے ان کے عرس کی تیاریاں جاری ہیں ٹی ایل پی کی قیادت نے اس عرس کو تین دن رکھا کیونکہ ان کو امید ہے کہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں لاہور آئیں گے اور جس کی وجہ سے لاہور کے داخلی اورخارجی راستے ٹریفک کی وجہ سے بند نہ ہو جائیں۔ اور اہل لاہور کو کسی طرح کی بھی کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں پر ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ تمام لوگ اس عرس میں اپنی جیت سے خرچا کر کے آئیں گے اور عرس پر بھی جو لنگر کا انتظام کیا گیا ہے و ہ بھی خود اپنی اپنی جیب سے کر رہے ہیں۔ اب حکومت پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ اس عرس پر آنے والوں کے لئے ٹریفک کے نظام کی بحالی کےلئے اپنا پلان تیار کرے تاکہ آنے والوں اور اہل لاہور کو کسی طرح کی بھی کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

مزیدخبریں