اپوزیشن سے سودے بازی میں ناکامی

اپوزیشن سے سودے بازی میں ناکامی
سورس: فائل فوٹو

سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے “ ، ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہونا ممکن ہو۔ ملک میں اس وقت اضطراب اور ہلچل کی جو کیفیت ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ سٹیک ہولڈر مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ کسی تبدیلی کی صورت میں انہیں مکمل تحفظ اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو اور حالیہ برسوں میں ان کے کئے کرائے پر پر مٹی ڈال دی جائے ۔ معاملہ مگر اب اتنا آسان اور سادہ رہا نہیں ۔سو جوتے سو پیاز بیک وقت کھانے والی اپوزیشن جماعتیں اپنے لائحہ عمل پر چل رہی ہیں ۔ ان کی اپنی صفوں میں مکمل ہم آھنگی نہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں کہ راولپنڈی والوں نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ہی نہیں لندن میں نواز شریف سے بھی رابطہ کیا ۔ ان ملاقاتوں میں جو پیکیج بھی دیا گیا اس پر مثبت جواب نہیں آیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کی کوشش یقینا یہی ہے کہ اب اور آگے چل کر بھی یہی ہوگی کہ اس پر انگلیاں نہ اٹھیں اور اگلا سیٹ اپ جب کبھی بھی آئے اچھا بچہ بن کر کام کرتا رہے ۔ اس حوالے سے جن لوگوں کو آفرز کی جارہی ہیں وہ ماضی میں کئی طرح کے تلخ تجربات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی حکومتیں گنوا چکے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر نام نہاد اقتدار کر اسٹیبلیشمنٹ کی قائم کردہ حکومت کی پیدا کردہ پیچیدہ اور بھاری مشکلات کا بوجھ اٹھائیں اور خود اپنی گردن شکنجے میں پھنسا دیں ۔ کہتے ہیں کہ کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں مگر ناکامی یتیم ہوتی ہے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔ بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ عمران خان کو وزیر اعظم بنا کر اگلے دس سال کے لئے مزے سے حکومت کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا ۔ امپائروں نے اس عرصے کے لئے اپنے کرداروں کا تعین بھی پہلے سے ہی کر رکھا تھا ۔ افسوس سب مل کر بھی کچھ نہ کرسکے ۔ تبدیلی سرکار آنے کے صرف ایک سال بعد ہی سب کچھ الٹا ہونا شروع ہوگیا ۔ آج ساڑھے تین سال بعد یہ حالت ہے کہ حکومت کو لانے والے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں ۔ مسئلہ صرف معاشی محاذ پر ہی نہیں بلکہ ہر محکمہ ہر ادارہ تنزلی کی جانب رواں ہیں ۔سکیورٹی ادارے اندرون ملک ہی اس قدر مصروف ہیں کہ کبھی حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدے کراتے ہیں کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ سیز فائر کرتے پھرتے ہیں ۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ اسلام آباد سے یہ بھی طے ہوگیا کہ آئندہ ٹی ٹی پی سے معاملات کا رخ مثبت ہی رکھنا ہوگا ۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے بارے میں قطعی طور پر کوئی مخالفانہ سوچ یا منفی رائے نہیں رکھتے ۔ عالمی ، علاقائی اور داخلی حالات کے باعث اسٹیبلیشمنٹ بھی اب اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے بات کرنے پر مجبور ہے ۔ مگر اب تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ۔ پیپلز پارٹی جس طرح واردات ڈال کر پی ڈی ایم سے الگ ہوئی اس کے بعد بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمن سے ان کے گھر جاکر ملاقات معنی خیز ہے ۔ اس سے پہلے شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر متحرک ہوئے تو خود بلاول بھٹو سے رابطے کرتے رہے ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کے صلح جو عناصر کو کہیں سے لائن دی گئی ہے کہ ایک خاص فارمولے پر عمل کرتے ہوئے تبدیلی کے لئے آگے بڑھیں۔ فی الحال تو معاملات طے پاتے نظر نہیں آرہے ۔ لیکن یہ بھی ٹھوس حقیقت ہے ملک ایسے چل نہیں سکتا

۔گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کو سزا کا معاملہ ایک بار پھر سے ملکی بلکہ بین الاقومی میڈیا کی زینت بن گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے توہین عدالت کے نوٹس جاری کردئیے ہیں ۔ رانا شیشم نے بیان حلفی میں بتایا ہے کہ کس طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کے سامنے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو ہدایت کی کہ نواز شریف اور مریم کو عام انتخابات سے پہلے کسی صورت رہا نہیں ہونے دینا ۔ اس بیان میں کچھ نیا نہیں اتنا ضرور ہے کہ یہ ایک عدالتی دستاویز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ بھی بہت اہم پیش رفت ہے ۔ الیکشن 2018ءمیں من پسند نتائج حاصل کرنے کے جو کچھ کیا گیا وہ کھلم کھلا تھا ۔ اس بدترین دھاندلی کے شدید ترین اثرات اب تک سسٹم کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں ۔ نواز شریف اور مریم ہی نہیں دیگر لیگی قیادت کے خلاف جو کچھ کیا گیا وہ پہلے ہی بڑی بڑی محفلوں میں ڈنکے کی چوٹ پر بتا دیا گیا تھا ۔مرحوم جج ارشد ملک کی اس حوالے سے ویڈیو سامنے آئیں تو خیال تھا کہ شاید مقدمات پر اثر پڑے مگر اس وقت کی جسٹس کھوسہ اینڈ کمپنی نے ریلیف دینے سے انکار کردیا۔ جو لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ رانا شمیم کو تین سال بعد خیال کیوں آیا ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ جب مثالی کردار اور قابلیت والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان حقائق کا بروقت انکشاف کیا تھا تو ان کا کیا حشر کیا گیا ۔ فرض کریں رانا شمیم اسی وقت یہ بات اوپن کردیتے تو کیا حاصل ہوتا ۔ اسٹیبلیشمنٹ کی ایما پر سرگرم عدالتی کردار اہم ترین عہدوں پر فائز تھے۔جہاں جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے مقبول اور بڑے قد کاٹھ والے جج کا بس نہیں چل سکا وہاں رانا شمیم تو شاید پہلے ہی دن اغوا یا گرفتار کرلئے جاتے ۔ سو اس حوالے ٹائمنگ زیادہ بہتر ہے ۔ یہی محسوس ہو رہا ہے اس بیان حلفی کے لئے وقت کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ مقدمہ صرف قانونی ہو تو قانونی طور پر لڑا جانا چاہیے ۔ مقدمہ سیاسی ہو تو قانونی اور سیاسی دونوں حوالوں سے لڑنا ہی دانشمندی ہے ۔ دیر سے ہی سہی مگر متاثرین عدلیہ کو اب یہ نکتہ سمجھ میں آگیا ہے۔ ادھر وزرا ہیں کہ اعتماد سے محروم ہوتے جارہے ہیں ، فواد چودھری نے کسی ممکنہ کارروائی سے بچنے کے لئے الیکشن کمیشن سے جو غیر مشروط معافی مانگی ہے اسکا یہی مطلب ہے انہیں اب ایک پیج پر اعتبار نہیں یا پھر وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک پیج میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا ، الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دئیے جانے سمیت دیگر قوانین کو منظور کرانے کے لئے اسٹیبلیشمنٹ کو ایک بار پھر کھل کر سامنے آنا پڑا ۔ اس مرحلے پر اس عمل کو ایسے ہی لیا جائے کہ منصوبہ ساز انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے اپنے اختیارات اور صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اسٹیبلیشمنٹ کی موجودہ قیادت کی پسند ہوسکتے ہیں مگر یہ لازمی نہیں کہ چند ماہ بعد بھی یہی صورتحال رہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کا اصل مسئلہ اپنی پوزیشن اور وسائل کے حوالے سے کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ اس کے نیچے رہ کر کوئی بھی ڈھیلی ڈھالی اور مودب حکومت آجائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگرچہ ہماری موجودہ اپوزیشن میں بھی کئی کردار اس نوکری کے لئے تیار ہیں مگر انہیں اپنی ہی جماعتوں سے مطلوبہ حمایت نہیں مل رہی ۔ اسٹیبلیشمنٹ نے سٹیٹ بنک کی خود مختاری اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کے لئے اپیل کے حق جیسے قانون منظور کراکے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ملک کے اندرونی حالات پر مگر کچھ اچھا اثر نہیں پڑنے والا ، اس سلسلے میں جو ردعمل آرہا ہے اور آگے چل کر بڑھے گا وہ اسٹیبلیشمنٹ کو مجبور کرے گا کہ وہ خود کو حکومت سے ایک خاص فاصلے پر دکھانے کی کوشش کرے ۔ دوسری جانب اپوزیشن ، آزاد میڈیا ، ایماندار ججوں ، وکلا تنظیموں اور سول سوسائٹی نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جس میں حکومت کی ہر حرکت کا “ کریڈٹ “ لازما ًایک پیج کو ہی جائے گا ۔ اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد کسی بڑی سرگرمی کا امکان نہیں رہا تو یہ محض بھول ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کا بل سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب خود حزب اختلاف کے ہی بعض رہنما کہہ رہے ہیں کہ موجودہ عدلیہ بھی بنچ دیکھ کر فیصلے کا پتہ چل جاتا ہے ۔ عدالتوں سے زیادہ توقعات تو شاید اپوزیشن کو بھی نہ ہوں مگر یہ ایک بہترین موقع ہے کہ درخواستیں دائر کر کے متنازع معاملے کو خوب اچھی طرح سے اچھالا جائے۔ ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ یہ ماننا ہوگا کہ اپوزیشن کی مشکلات پہلے سے کم ہوگئی ہیں ۔ کیا حکومت کے لئے بھی ایسا ہی ہے ، شاید نہیں ، یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کسی بھی طرح کے قوانین کا اطلاق اس وقت کے حالات اور ماحول کے مطابق ہوتا ہے ۔ عام انتخابات کا مرحلہ آیا تو انتخابی اصلاحات کے اس پیکیج کو اڑانا پہلا مطالبہ ہوگا ۔ایسے مطالبات صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ میدان عمل میں آکر کئے جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے اس سلسلے میں بھی پلاننگ کررکھی ہو مگر ہر بار ایک ہی فریق کا جتنا لازمی تو نہیں ۔