اسلام آباد: تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ جہاں بھی کرپشن ہو گی خواہ وہ کس نے کی ہے اور اس میں کون ملوث ہے اس پر نیب ایکشن لے گا۔ ہر طاقت ہر اثر اور ہر دھمکی نیب کے گیٹ کے باہر ختم ہو جاتی ہے اور اندر آنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ کام ایسے ہی چلے گا جیسے چل رہا ہے اور آپ جو چاہے کہیں، کارواں نے چلنا ہے اور چلتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور کرپشن فری پاکستان نیب کی منزل ہے۔ اس میں جتنے طوفان آئیں اور کچھ بھی کہا جائے لیکن نیب پیچھے نہیں ہو گا جو مقدمات ہیں ان کو دیکھا جائیگا۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ اب ایسے کیسز کی جانب بڑھ رہے ہیں جس سے اس تاثر کی نفی ہو گی کہ احتساب یکطرفہ ہے، یہ الزام اس لیے درست نہیں کہ وہ جماعتیں جو 30، 35 سال اقتدار میں رہیں اور وہ گروپ جن کو آئے کچھ ماہ گزرے تو کچھ نہ کچھ دیکھنا ہوگا کہ اتنے سالوں میں کیا کرپشن ہوئی اور 12 ماہ میں کیا کرپشن ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 2017 کے بعد کوئی بڑا اسکینڈل منظر عام پر نہیں آیا کہ کوئی بھی ناقد اس پر تنقید کرے، کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف نیب ہی نیب ہے اور کبھی کبھی اچھا لگتا ہے لیکن کبھی لگتا ہے کہ کچھ باتوں کا کوئی وجود نہیں، کچھ باتوں کا مقصد نیب کے امیج کو خراب کرنا ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں نیب نے بی آر ٹی پشاور کے لیے کیا کیا۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا ہوا ہے اور اس کی روشنی میں نیب ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی۔ کوشش کر رہے ہیں یہ حکم امتناع ختم ہو تاکہ قدم بڑھائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے نزدیک کسی شخص کی اہمیت نہیں اور چھوٹی سے بات ہے کہ جو کرے گا وہ بھرے گا، نیب کے اختیار میں جو کچھ ہوا وہ اس لیے کرینگے کہ عوام کی حالت آپ کے سامنے ہے، کسی پر غلط تنقید سے قد میں اضافہ نہیں ہوتا، مجھ پر الزام تراشی، کردار کشی، دھمکیوں اور لالچ کا کوئی فائدہ نہیں، عمر کے اس حصے میں ہوں کہ کوئی خیال ذہن میں لانا کہ کوئی سمجھوتا ہوگا۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے کوئی سمجھوتا ہو گا، نہ کوئی ڈیل ہوگی، نہ کوئی ڈھیل ہوگی اور نہ کوئی این آر او ہوگا، نہ ہماری کسی سے دشمنی ہے اور نہ دوستی ہے، صرف آئین و قانون کے تحت کام کرنا ہے اور جن لوگوں نے نیب قانون کو نہیں پڑھا وہ بھی اس پر تنقید کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم ہے اس میں اور ایک عام جرم میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس کرائم کی ابتدا مشرق سے ہوتی ہے تو انتہا مغرب پر ہوتی ہے، یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ اگر لاہور کا کیس ہے تو وہ اسلام آباد تک پہنچا اور وہاں سے کراچی اور پھر خلیجی ریاست تک پہنچا، ایسا تو اسکاٹ لینڈ یارڈ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ 90 دن میں پورا کام کرلے۔
جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آج کسی کو گرفتار کریں تو کہتے ہیں سیاسی انتقام لیا جا رہا لیکن ہم سیاسی انتقام کیوں لیں گے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمیں اتنا بھی زیادہ خوف نہیں پھیلانا کہ مائیں اپنے بچوں کو ہمارا نام لے کر ڈرائیں۔ نیب پر الزامات کے بجائے آپ پلین بارگین کر کے جس ملک چاہیں چلے جائیں۔