شائد ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہو جو ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت کا حامی اور سویلین سپریمیسی کامخالف ہو۔ ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت کس قدر خطرناک اور ناقابل برداشت ہے یہ مجھ جیسے لوگوں سے بہتر کون جانتا ہے جس نے عملی طور پر دو فوجی آمریتوں کا ڈٹ کے مقابلہ کیا ہو اور وہ آج بھی کسی بھی صورت ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ناموں کے ساتھ ڈکٹیٹر لکھنا نہ بھولتا ہو۔
ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت یا براہ راست قبضہ، اپنے ذاتی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ یا پھر عام سویلین معاملات میں فوجی عدالتوں کے قیام کا مسئلہ ہو تو یقینا اس کی مخالفت کی جانی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی وضع ہو جانا انتہائی اہم ہے کہ اگر سویلینز جا کر فوج پر، ان کی تنصیبات پر، ان کی رہائشگاہوں پر اور شہدا کی نشانیوں پر حملہ آور ہوں گے تو اس کا ردعمل کس قسم کا ہونا چاہیے۔
معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اگرچہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف صاحب نے 9 مئی کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے کہ9مئی کو ہونے والی ہلڑ بازی، لوٹ ماراور قانون شکنی پر انہیں واقعی بہت افسوس ہوا ہے، انہیں بہت سے عملی اقدامات بھی کر کے بھی دکھانا ہوں گے جن کی فی الحال کمی نظر آتی ہے۔
چند روز قبل دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے یہ بات ہو رہی تھی کہ ہماری نسل نے دو فوجی آمریتوں کو تو بھگتا ہی ہے۔ ان ادوار بالخصوص ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں فوجی آمریت کے خلاف بھر پور مزاحمت بھی تھی اور اس کے خاتمہ کے لیے مختلف سطح پر تحریکیں بھی چل رہی تھیں۔ ادبی اور دانشوروں کی تحریک فلیٹیز ہوٹل کے ہال میں منعقد ہونے والے سیمیناروں اور ادبی سیشنز پر مشتمل تھی جبکہ احتجاجی جلسہ جلوس ناصر باغ سے لے کر چیئرنگ کراس اور بڑی حد گورنر ہاؤس تک محدود تھے۔ یعنی بدترین آمریتوں میں بھی احتجاج کرنے والوں نے کبھی گورنر ہاؤس سے آگے جانے کا سوچاتک نہیں تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین مسٹر عمران خان بلاشبہ ایک مقبول سیاسی راہنما رہے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اور ان کی پارٹی کی بقیہ قیادت نے اپنے کارکنان کی کیسی تربیت کی ہے کہ
صرف ایک معمولی سے کیس میں گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے تمیز تہذیب، نظم، ضبط اور قانون کی تمام حدیں ہی پھلانگ ڈالیں۔
احتجاج کے نام پر ہلڑ بازی اور بلوہ کرنے والے ان لوگوں نے نہ تو اداروں کے تقدس کا خیال رکھا، نہ چادر اور چار دیواری کی کسی حد کو مانا، نہ قومی شہدا کی یادگاروں کی حرمت کا خیال کیا اور نہ ہی ملک کے قانون کو خاطر میں لائے۔ سیاسی کارکنوں کے روپ میں ان دہشت گردوں نے نہ صرف پاک فوج اور پولیس کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ عام شہری بھی ان فسادیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔
جب یہ طوفان بدتمیزی اپنے عروج پر تھا تو میں ٹیلیویژن پر صورتحال دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کرنے والے یقینا نہ تو کوئی سیاسی کارکن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس قسم کے اقدامات کا فیصلہ اچانک ہوتا ہے۔ اس سب کے پیچھے ایک پوری منصوبہ بندی کارفرما رہی ہو گی۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرنے والا کوئی صحافی کہہ رہا تھا کہ ان بلوائیوں میں سے بیشتر کے چہرے پہچانے جائیں گے اور تصاویر اور ویڈیوز کی مدد سے انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا کافی آسان ہو گا۔
یہ بات بھی کسی حد تک معقول اور قابل عمل ہے لیکن میں تو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ، ’چور کو نہ پکڑیں بلکہ چور کی ماں کو پکڑیں‘، یعنی ان بلوائیوں میں یقینی طور پر تربیت یافتہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ کچھ جذباتی قسم کے سیاسی کارکن بھی شامل ہوں گے۔ اگر اس فساد کی جڑ تک پہنچنا ہے تو بس ان لوگوں کو پکڑیں جنہوں نے حساس مقامات کی جانب جانے اور وہاں پر ہلڑبازی کرنے کی کال دی۔ اگر کامیابی کے ساتھ ایسا ہو گیا تو مجھے یقین ہے کہ تمام کہانی الف سے لے کر ی تک بالکل واضح ہو جائے گی اور اتنی بڑی قانون شکنی کی منصوبہ بندی کرنے والے اور پھر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے والے تمام چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔
آج جب قانون حرکت میں آ چکا ہے تو بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنے جانثار قسم کے کارکنان کو پہچاننے تک سے انکاری ہے اور کارکنان کا یہ عالم ہے معافیوں کی ویڈیوز دھڑا دھڑ اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 9مئی کو ہونے والے جرائم کا حساب کون دے گا؟ اس سب ڈرامہ بازی کی وجہ سے جو مالی نقصانات ہوئے وہ بھی بہت بڑے ہیں لیکن ملک اور پاک فوج کے پوری دنیا میں تاثر کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ فوجی املاک اور شہدا کی یادگاروں پر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے مجرموں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم ہوں اور فوجی عدالتوں میں ان مقدمات کی شنوائی ہو۔ تکنیکی اعتبار سے تو یہ بات بالکل درست معلوم نہیں ہوتی لیکن 9مئی کو جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے ہوا اس کے بعد تو بلوائیوں کے علاوہ پوری قوم متفق ہے کہ ہلڑ بازوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔شائد آج ہمیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات اور فوجی عدالتوں کے قیام جیسے فیصلے نہ کرنا پڑ رہے ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ملزم کا بااثر اور مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا موجودہ حالات میں آرمی ایکٹ کے نفاذ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔