ہم بھی کیا قوم اور کیسے لوگ ہیں؟ہمارے ہاں جس کا جو کام ہے وہ اسے کرنے کے بجائے دوسرے کے دائرہ کار میں دخل اندازی اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ، ترقیاتی فنڈز کا مسئلہ ہو یا انتظامی اور آئینی معاملہ ، ادارے ایک دوسرے کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں محاذ آرائی اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے ، بد قسمتی یہ بھی ہے کہ مقننہ کے ارکان اپنے اصل کام سے ہٹ کر دوسرے معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں،ان کا اصل کام قانون سازی اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے پہلے سے موجود آئینی دفعات میں ترمیم لانا ہے،مگر انہوں نے کبھی اپنے اس آئینی فریضے پر مکمل دھیان نہیں دیا، منتخب ارکان کی اکثریت آئین و قانون پر توجہ ہی نہیں دیتی،پارٹی سربراہ جس آئینی ترمیم کو لاتا ہے بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح سب اس طرف ہانک دئیے جاتے ہیں،کوئی نہیں جانتا کہ اس حوالے سے پہلے آئینی دفعات کیا تھیں اور اب جو ترمیم لائی جا رہی ہے اس کے مقاصد کیا ہیںاور اصل میں کس نوعیت کی ترامیم مطلوب ہیں؟آئین کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ کی طرف دیکھا جاتا ہے یا من مرضی کی تشریح کر کے ایسا کام کیا جاتا ہے جو اپنے مفاد میں ہو،آئین واضح کرتا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام،کابینہ کا کام اس کی روشنی میں پالیسیاں وضع کرنا اور انتظامیہ ،بیوروکریسی کا کام ان پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے،مگر بیورو کریسی کو یہ حق کسی دور میں نہیں دیا گیا،ہر حکمران جماعت نے زیادہ سے زیادہ اختیارات خود حاصل کرنے کیلئے مرضی کی قانون سازی کی کوشش کی۔
نیب اپنے قیام سے آج تک سیاسی انتقام کا ذریعہ اور اپنا گند اٹھا کر دوسروں کے سر ڈالنے کا کھیل بنا ہوا ہے ، اس کھیل میں سب سے زیادہ انتظامیہ ہی پستی ہے ،انتظامیہ ہر حکومت کا چہرہ ہوتی ہے ، پالیسیوں پر عملدرآمد ہو ، ترقیاتی منصوبے ہوں، امن و امان کا مسئلہ ہو یا مہنگائی ذخیرہ اندوزی اور قلت کا معاملہ ، اسے قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہا ہے اور جب بات احتساب کی آئے تو تب بھی قانون کی صلیب اسی کے حصے میں آئی۔ہر دور میں نیب قوانین میں ترامیم لاکر اسے عوام دوست بنانے کی کوشش کی گئی لیکن دراصل یہ سعی ہوتی تھی خود کو احتساب سے نجات دے کر دوسروں کے گلے میں پھندہ ڈالنے کی،نتیجہ یہ کہ ملکی انتظامیہ گزشتہ چار سال سے ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے‘‘سرکاری افسران اور ماتحت عملہ خوفزدہ،ہر کندھے پر وحشت اور دہشت کی صلیب گڑی ہے،کوئی بیوروکریٹ کسی ایشو پر فیصلہ کرنے اور ذمہ داری لینے کو تیار نہیں،فائلیں کچھوے تو کیا کیڑی کی رینگنا بھی بھول گئی ہیں،’’جہاں ہے جیسے ہے‘‘ کی صورتحال میں عوامی مسائل کیونکر حل ہو سکتے ہیں؟مہنگائی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو کیسے قابو کیا جا سکتا اور جرائم کی شرح میں کمی کیونکر ممکن ہے؟
انصاف حکومت میں بھی نیب قوانین میں تبدیلی کی بات ہوئی مگر تب اس وقت کی اپوزیشن جو آج کی حکومت ہے نہ مانی ،اس کا خیال تھا کہ یہ ترامیم ان کے خلاف استعمال ہونگی،مگر آج خود وزیر اعظم شہباز شریف ترامیم کے حوالے سے سنجیدہ ہیں،کابینہ اجلاس میں اس حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی،ارکان نے نیب کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے ترامیم کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی،تسلیم کیا گیا کہ نیب کا کالا قانون صرف سیاسی انتقام سرکاری اہلکاروں اور کاروباری طبقے کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا،اسی وجہ سے بیوروکریسی فیصلے لینے سے ڈرتی ہے،اسی وجہ سے اہم ترین انتظامی امور ادھورے پڑے ہیں،کابینہ اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن نے قائمہ کمیٹی کی تیار کردہ سول سرونٹس ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فرام سروس رولز2020کی رپورٹ پیش کی،رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان رولز میں وہ تمام قواعد موجود ہیں جو گورنمنٹ سرونٹس ((efficiency & dicilineمیں پہلے سے موجود ہیں،جس پر کابینہ ارکان نے تسلیم کیا کہ یہ رولز سرکاری افسراں پر دبائو ڈالنے کیلئے استعمال کئے جاتے رہے،جن کا کوئی قانونی جواز نہیں،پہلے سے موجود قوانین کے اوپر دوبارہ سے رولز نہیں بنائے جا سکتے،احتساب کا عمل شفاف ہونا ضروری ہے لہٰذا ان رولز کے تحت سرکاری افسران کے خلاف شروع کی گئی کارروائی کو ختم کرنے اور رولز 2020کو منسوخ کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
وفاقی کابینہ کی سفارشات خوش آئند اور قابل عمل ہیں ، ان پر پوری دیانتداری سے عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے،ماضی میں بھی اس حوالے سے بہت سی دلکش اور دلنشین کہانیاں سننے کو ملیں مگر عملی اعتبار سے نتیجہ صفر تھا،اب بھی اگر ایسا ہوا تو جس بیوروکریسی کی تربیت پر قوم کا بھاری سرمایہ خرچ ہوا ہے وہ فورس ایک بے ہنگم ادارہ بن کر رہ جائیگی،جیسا ابتدا میں رقم کیا کہ اس حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کے دقیق مطالعہ کی ضرورت ہے،تنقیدی جائزہ کے بعد ان رولز میں سقم دور کر کے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے،اب جو بھی ترامیم ہوں گی ان کو بد نیتی تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ اتفاق رائے سے محروم ہوں گی،جیسا کہ عمران خان نے نیب قوانین میں ترامیم کی کوشش کی تو اپوزیشن نے اسے جانبدارانہ اور انتقامی کارروائی قرار دیا ایسے ہی عمران خان انتخابی اصلاحات لانا چاہتے تھے مگر اپوزیشن نہ مانی مگر اب خود حکومت انتخابی اصلاحات سے قبل الیکشن کرانے پر آمادہ نہیں،یہی وہ عدم اتفاق ہے جس کی سزا قوم کا بچہ بچہ بھگت رہا ہے،لہٰذا نت نئے قوانین متعارف کرانے سے بہتر ہے پہلے سے موجود قوانین میں موجود عیوب اور خامیوں کو دور کیا جائے اور یہ کام اتفاق رائے سے انجام پائے تو نئے رولز ، قوانین اور ترامیم کی ضرورت نہیں رہے گی،وہ نظام جو عشروں سے رائج ہے اور جس کے ذریعے سے بہتری کسی صورت بھی دکھائی دے ان کو فراموش کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہو گی۔
بیوروکریسی اور انتظامیہ میں تو پہلے سے ہی احتساب کا خود کار نظام موجود ہے،ترقی تبادلے تعیناتی تنزلی جبری رخصت اور مراعات دینے کے حوالے سے ایک خود کار میکنزم پہلے سے موجود ہے اس کو مزید بہتر کر کے استفادہ کرنا آسان ہے، جن قوانین پر کبھی پوری روح کے مطابق عمل ہی نہیں کیا گیا ان کو ختم کر دینا عقلمندی نہیں ہو گی،بیوروکریسی کو ادارہ سمجھنا ہو گا،یہی افسران ہیں جو قواعدو ضوابط سے نا بلد وزراء کو سرکاری امور چلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں،یہی افسر ہیں جو وزیر کو ان کی حدودو قیود بتاتے ہیں تو وہ اپنے اختیارات اور حد بندی سے بھی آگہی رکھتے ہونگے، اگر بیوروکریسی کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے اور انہیں رولز میں رہتے ہوئے ریاستی امور انجام دینے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو احتساب کے ادارے ،احتسابی قوانین، نیب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی،اس لئے کہ کوئی کام خلاف ضابطہ انجام ہی نہیں پائے گا،سب قانون کے دائرے اور آئین کے مطابق ہو گا تو کسی انکوائری کی ضرورت رہے گی نہ احتساب کی تلوار بے نیام کرنا پڑے گی۔