لاہور :ٹیکس ادا نہ کرنے والی مقامی سگریٹ کمپنیاں سستی سگریٹ کی فراہمی کے ذریعے نوجوانوں کوتمباکو نوشی کی جانب راغب کررہی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کمپنیوں کی جانب سے اپنے سگریٹ برانڈ زکی زیادہ سے زیادہ فروخت کے لیے صارفین اور دکانداروں کو نقد انعامات اور تحائف کی بھی پیش کش کی جاتی ہیں۔ تازہ ترین سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں متعدد دکانوں اور پان کے کیبن پر غیر قانونی اور غیر معیاری سگریٹ کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والی سگریٹ کمپنیاں ایک سگریٹ کا ڈبہ 20 تا 40 روپے کے درمیان فروخت کررہی ہیں جوکہ حکومت کی جانب سے طے شدہ قیمت 63 روپے سے بے حد کم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تمام سگریٹ برانڈز حکومت کی جانب سے عائد کردہ ٹیکس جوکہ 44 روپے فی پیک ہیں سے بھی کم میں فروخت کی جارہی ہیں۔ سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ یہ مقامی سگریٹ کمپنیاں حکومت کی جانب سے عائد کردہ ٹیکس ادا کئے بغیر کس طرح اپنی سگریٹس کی فروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں؟
دنیا بھر میں پاکستان کا شمار سستی ترین سگریٹ فروخت کرنے والے ممالک میں ہوتا ہیں اور یہ حیرت کی بات نہیں کیونکہ ملک کی 40 فیصد مارکیٹ پر مقامی سگریٹس کمپنیوں کا غلبہ ہے جوکہ ایک سگریٹ کا دبہ 20 روپے اور اس سے بھی کم قیمت پر فروخت کررہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے تمام سگریٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو واضح کیا گیا ہے کہ ایک سگریٹ کا دبہ 63 روپے سے کم قیمت پر فروخت نہ کیا جائے۔ مقامی سگریٹس کمپنیاں ٹیکس کی ادائیگی نہ کر کے اربوں روپے کی چوری کرتی ہیں اور بیک وقت کم داموں میں سگریٹ فراہم کر کے نوجوانوں میں تمباکو نوشی کی حوصلہ افزائی بھی کررہی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے جس سے سرکاری خزانے کو سالانہ بنیاد پر 77 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
صارفین کو با قائدہ طور پر سستی سگریٹ خریدنے پر للچایا جاتا ہے چونکہ ٹیکس ادا کرنے والے متبادل سگریٹ برانڈ ز کے مقابلے ان کی قیمت کئی حد تک کم ہوتی ہے۔غیر قانونی سگریٹس مافیا نہ صرف معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اشتہارات اور پروموشن کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کی بھی مرتکب ہے۔ وزارت صحت کے قانون کے مطابق، تمباکو کی اشتہاری ہدایا ت 2009 کے تحت، تمباکو کی تشہیر پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے اور سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیاں فروخت کو بڑھانے کے لئے نقد انعام اورکسی بھی قسم کے تحائف پیش نہیں کرسکتی ہیں۔ تاہم، مقامی مینوفیکچررز قواعد و ضوابط کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دکانداروں کی جانب سے صارفین کو اپنے پیکٹ کی خریداری پر موبائل، نقد انعام اور موٹر بائیک کی شکل میں مختلف مراعات کی پیش کش کررہے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں ملک میں نوجوانوں کو تمباکو نوشی کی جانب راغب کرنے کی ذمہ دار ہے۔
انڈسٹری ماہرین کے مطابق ہر مرتبہ سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے سے غیر قانونی تمباکو مافیا کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ قانونی حیثیت رکھنے والی صنعت قوانین پر عمل کرتی ہے اور اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تاہم غیر قانونی اور غیر معیاری سگریٹ بنانے والے ان قوانین پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ انڈسٹری سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز کی قیمتوں میں تسلسل رہا ہے ہالانکہ گزشتہ 5 سالوں کے درمیان حکومت کی جانب سے 20 سگریٹ کے ایک پیکٹ پر عائد ٹیکس میں سالانہ بنیادو ں پر اضافہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود مقامی سگریٹ برانڈز کی قیمت 15 سے40 روپے کے درمیان رہی۔ دوسری جانب قانونی صنعت نے تمام قوانین کی تعمیل کو یقینی بنایا ہے لیکن اس کے باوجود غیر قانونی سگریٹ برانڈز کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ صارف سستی اور غیر معیاری مصنوعات کی طرف جلد مائل ہوتے ہے۔
اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور حکومت کی توجہ موجودہ قوانین کے موثر نفاذ اورٹیکس چوروں کو پکڑنے کے بجائے صرف اور صرف ٹیکس بڑھانے پر مبذول رہی تو حکومت اپنے مالی/ معاشی اور صحت کے حوالے سے مقرر کردہ اہداف کو حاصل نہیں کرسکے گی۔