لکھنؤ، بھارت میں 100 سال پرانی مسجد گرادی گئی ۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے بارہ بنکی میں غریب نواز المعروف مسجد کی تعمیر برصغیر میں انگریز دور میں ہوئی تھی جس کو منہدم کردیا گیا ۔مسلمانوں نے اس معاملے پر ہائی کورٹ جانے کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات ہزاروں بھارتی پولیس اہلکاروں نے مسجد کا محاصرہ کیا اور مسلمانوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی۔ پھر مسجد کو منہدم کرکے اس کا ملبہ تک دریا میں بہادیا گیا۔ اس دوران عملا کرفیو لگادیا گیا اور کسی کو کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔
ریاست اترپردیش میں 2017 سے بی جے پی کی حکومت ہے اور ہندو انتہاپسند یوگی ادتیہ ناتھ وزیراعلیٰ ہے۔ ریاست کی آبادی 20 کروڑ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔
اترپردیش سنی مرکزی وقف بورڈ نے مسجد اور ریاست میں مسلمانوں کی دیگر املاک کو شہید کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یہ کام کرکے عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس نے 31 مئی تک اسٹے آرڈر جاری کر رکھا ہے۔ بورڈ نے اسے حکومت کی غیر قانونی سخت کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔
بورڈ کے چیرمین ظفر احمد فاروقی نے کہا کہ یہ اقدام غیر قانونی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے، ہم مسجد کی دوبارہ تعمیر کے لیے عدالت جائیں گے اور مسجد کی شہادت میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی درخواست کریں گے۔
مقامی رہائشی نوجوان سید فاروق احمد نے بتایا کہ انتظامیہ نے ایک ماہ سے مسجد میں نماز پر پابندی لگادی تھی اور دروازے پر دیوار بھی تعمیر کردی تھی جس کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے انہیں مارا پیٹا اور گرفتار کرکے مختلف مقدمات بنادیئے گئے، مقامی مسلم آبادی کو ڈرا دھمکا کر خوف زدہ بھی کیا گیا۔
پھر مسجد کمیٹی کو شوکاز نوٹس دے کر کہا کہ یہ مسجد ایک سرکاری افسر کے گھر کے سامنے تعمیر کی گئی ہے، عدالتی حکم کے مطابق ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تمام مبینہ غیر قانونی مذہبی تعمیرات کو منہدم کردیا جائے گا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شوکاز نوٹس میں جو پلاٹ نمبر پر لکھا گیا ہے وہ مسجد کا ہی نہیں ہے، جبکہ مسجد سڑک سے 100 فٹ دور ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں کوئی خلل بھی واقع نہیں ہورہا، مسجد کمیٹی نے اپنے جواب میں تمام حقائق کا ذکر کیا لیکن حکومت نے اس پر کان نہ دھرے۔