واشنگٹن : روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس بات چیت میں یوکرین جنگ سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکا اور روس کے درمیان بہتر تعلقات کے بہت فائدے ہیں اور یوکرین جنگ میں دونوں ممالک جانی و مالی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ دونوں نے کہا کہ یہ جنگ کبھی شروع نہیں ہونی چاہیے تھی اور اس پر خرچ ہونے والی رقم عوام کی ضروریات پر خرچ ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امن کی مخلصانہ کوششوں کے ذریعے یہ جنگ بہت پہلے ختم ہو سکتی تھی۔
ٹرمپ اور پیوٹن نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تعاون کے ذریعے تنازعات کو روکا جا سکتا ہے اور اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے کی ضرورت ہے۔ دونوں نے کہا کہ ایران کو کبھی بھی اسرائیل کی تباہی کی پوزیشن میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، روس نے یوکرین کے توانائی انفرااسٹرکچر پر 30 دن تک حملے نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ دونوں رہنماؤں نے بُحیرہِ اسود میں جنگ بندی اور مستقل امن کے لیے تکنیکی مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، مذاکرات فوراً مشرق وسطیٰ میں شروع ہوں گے۔ روسی صدارتی محل کریملن نے بھی تصدیق کی کہ صدر پیوٹن نے فوج کو 30 دن تک یوکرین کے توانائی انفرااسٹرکچر پر حملوں سے گریز کرنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب، یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا کہ روس کی شرائط ظاہر کرتی ہیں کہ روس جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کا مقصد یوکرین کو کمزور کرنا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی امریکی تجویز پر بات کرنے کے لیے ٹرمپ سے رابطہ کریں گے تاکہ یہ جان سکیں کہ روس نے امریکا کو کیا پیشکش کی ہے اور امریکا نے روس کو کیا پیشکش کی ہے۔