یہ کوئی دو ہفتہ قبل کی بات ہے کہ پنڈی سے میرے گائوں چونترہ کو جانے والی سڑک اڈیالہ روڈ پر پنڈی سے تقریباً 18کلومیٹر کے فاصلے پر جانی موڑ کے نام سے معروف خونی موڑپر ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس میں پنڈی سے گائوں کی طرف جانے والی مہران گاڑی کے ساتھ سامنے سے آنے والی ٹیوٹاہائی ایس ویگن ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں کار میں سوار محترم محمد یعقوب صاحب موقع پر جاں بحق اور انکا بیٹا جوگاڑی چلا رہا تھا اور انکی اہلیہ جو گاڑی میں انکے ساتھ موجود تھیں شدید زخمی ہوگئے۔بلا شبہ یہ ایک خوفناک حادثہ تھا جو صبح 8:00 بجے کے لگ بھگ پیش آیا ۔ تھوڑے وقت میں اسکی اطلاع وٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیل گئی ۔ کسی مہربان نے مجھے بھی حادثے کی تفصیل اور فوٹو بھیج دی ۔ سچی بات ہے کہ شدید صدمہ ہوالیکن مشیت ایزدی میں کسے دخل ہوسکتا ہے ۔ رب کی رضا کے سامنے راضی رہنا پڑتا ہے ۔ بلا شبہ محمد یعقوب کے گھرانے کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اللہ کریم انکی مغفرت فرمائے ، درجات بلند کرے اور انکے لواحقین کو صبر جمیل اور انکی اہلیہ محترمہ اور انکے زخمی بیٹے کو صحت کاملہ نصیب کرے۔
مرحوم محمد یعقوب صاحب سے میرا نیاز مندانہ اور مخلصانہ تعلق تب سے قائم چلا آرہا تھا ۔ وہ مجھ سے چند برس چھوٹے ہونگے ۔ انکا جب بھی سامنا ہوتا وہ بڑے ادب واحترام اور پر تپاک طریقے سے ملتے ۔ میرے کالموں کے وہ مستقل قاری تھے اور گاہے، گاہے ان پر خیال آرائی کرتے رہتے۔ انہوں نے اپنے گائوں چونترہ اور متصل قصبے ادہوال میں سرسید سکول سسٹم کے تحت دو معیاری تعلیمی ادارے قائم کررکھے تھے ۔ پچھلے اور اس سے پچھلے لگاتار دو سال میں مجھے ان کے اداروں کی سالانہ تقسیم انعامات کی تقاریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کا موقع ملا ۔ مارچ 2020 میں تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کے بعد میں نے روزنامہ نئی بات میں " تذکرہ ایک معیاری درس گا ہ کا " کے عنوان سے جو کالم لکھا اسکے کچھ مندرجات اس خیال سے یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ میری طرف سے مرحوم محمد یعقوب کی خدمت میں ایک طرح کانذرانہ عقیدت ہے۔
"یہ رب کریم کی خصوصی عنایت ہے کہ پچھلی صدی کی 60کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں تعلیم و
تدریس کے شعبے سے جو وابستگی قائم ہوئی ، تقریباً 6عشرے گزرنے کے باوجود اب بھی کسی نہ کسی صورت میں قائم دائم ہے۔ میں یقینا اسے رب کریم کا خصوصی کرم ، اس کے حبیب کبریاؐ کا صدقہ اور اپنے مرحوم والدین کی دعائوں کا صلہ سمجھتا ہوں کہ پرائمری سکول کے معلم کی حیثیت سے سرکاری ملازمت کا جو آغاز ہوا تقریباً چالیس برس بعد وہ سیکنڈری سطح کے ایک انگلش میڈیم ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرہونے کے بعد بھی ابتک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ تاہم کبھی کبھی یہ خیال مجھے ضرور ستاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں اور شعبہ تعلیم میں ابتک سرانجام دینے والی خدمات میں سے کاش کچھ نہ کچھ میں اپنے علاقے ، اپنے گائوں اپنی جنم بھومی سے متعلقہ لوگوں کی بہبود کے لیے صرف کرتا تو میرے لیے زیادہ فخر کا باعث ہوتا۔ لیکن ایسا بوجوہ نہ ہو سکا ۔ اس کے لیے گائوں میں مستقل رہائش اختیار کرنا ضروری تھا لیکن کسب حلال کمانے کے تقاضے ، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریا ت پورا کرنے اور گھرانے کے کچھ معاملات و مسائل اتنے حاوی رہے کہ گائوں میں مستقل رہائش اختیار کرکے وہاں کسی دیر پا سرگرمی یا مصروفیت کا حصہ بننا میرے لیے اگر ناممکن نہیں تھا تو اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ تاہم میرے لیے یہ امر ہمیشہ سے باعث اطمینان رہا ہے کہ اپنی مٹی ، اپنی جنم بھومی اپنے گائوں اور اپنے لوگوں اور عزیز و اقارب سے چھوٹا موٹا ربط ضبط اور تقریبا ً ہر ہفتے گائوں آنا جانا عرصے سے میرا معمول اور لازمہ حیات کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود گائوں اور علاقے کی تعلیمی ضروریات میں حصہ ڈالنے سے اپنی محرومی کا قلق شاید ہمیشہ ستاتا رہے گا"۔
"اس طویل تمہید کا مقصد ہر گز خود نمائی نہیں اور نہ ہی یہ ظاہر کرنا ہے کہ میں کوئی بڑا ماہر تعلیم ہوں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ وہ لوگ میرے مقابلے میں زیادہ اچھے اور قابل قدر ہیں جو ضلع راولپنڈی کے تھانہ چونترہ جیسے انتہائی پسماندہ اور معیاری تعلیم سے محروم علاقے بالخصوص چونترہ ، ادھوال اورنواحی مواضعات میں معیاری تعلیم کی ضروریات ہی پورا نہیں کر رہے ہیں۔اس ضمن میں میں جناب محمدیعقوب صاحب اور ان کی ٹیم کا ذکر کرنا چاہوں گا جو سرسید ماڈل سکول چونترہ ، ادھوال کے پلیٹ فارم سے چونترہ ، ادھوال اور نواحی دیہات میں معیاری اور بامقصد تعلیم کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کیے ہوئے ہیں"۔
"جناب محمد یعقوب کا تعلق میرے آبائی گائوں چونترہ سے ہے۔ ان کا پڑھا لکھا گھرانا بلا شبہ انتہائی مثبت سوچ اور فکر کا حامل رہا ہے۔ ان کے والد گرامی حوالدار غلام محمد مرحوم جو کسی دوسرے علاقے سے ہمارے گائوں میں آکر آباد ہوئے تھے ایک نیک طینت شخصیت تھے۔ ان کی والدہ مرحومہ محترمہ اصغری آپا بہت مہربان اور نیک سیرت خاتون تھیں جو اپنے گھر میں گائوں کی بچیوں کو ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتی تھیں ۔ حوالدار غلام محمد مرحوم کا میں اپنے اوپر احسان سمجھتا ہوں کہ ان کے نام پر مسلح افواج کا مجلہ "ہلال" (جو اس وقت سہ روزہ اخبار کی صورت میں چھپتا تھا ) آیا کر تا تھا ۔ میں حوالدار غلام محمد مرحوم کی دکان پر چلا جاتا اور سہ روزہ ہلا ل کا مطالعہ کرکے اپنے مطالعے کی لگن کو پورا کر لیا کرتا۔
"جناب یعقوب صاحب اور ان کی ٹیم کی میں تحسین کرونگاکہ انھوں نے انتہائی پسماندہ علاقے کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک شاندار تعلیمی ادارہ ہی قائم نہیں کر رکھا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیمی معیار اور بامقصد تعلیم کے فروغ کی شاندار روایات کوبھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ جلسہ تقسیم انعامات کے سارے پروگرام اور سالانہ امتحان میں سٹوڈنٹس کی اعلیٰ کارکردگی اس کا بین ثبوت تھے ۔ جناب یعقوب صاحب نے یقینا اپنے وسیع تجربے اور بلند ویثرن کو بروئے کار لاتے ہوئے سرسید ماڈل سکول چونترہ ادھوال کو ایک حقیقی ماڈل سکول کا روپ دینے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی ہے۔ محترم یعقوب صاحب بلاشبہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے گھرانے کے انتہائی پڑھے لکھے افراد کی معاونت ہی حاصل نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی محنتی ، پرجوش اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیم کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید ماڈل سکول کے اعلیٰ تعلیمی معیار کا ہر کوئی معترف ہے" ۔
یعقوب صاحب مرحوم اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔انکے تعلیمی ادارے انکی خدمات سے محروم ہوگئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انکا قابل قدر اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانہ انکی قائم کی گئی روایات کو کامیابی سے لے کر آگے چلے گا ۔ میں دعا گو ہوں کہ انکے قائم کردہ یہ معیاری ادارے تعلیمی ترقی کی راہ پراسی طرح گامزن رہیں اور نئی سی نئی منزلیں سر کریں۔