ریاض: سعودی قلمکاروں نے نیوزی لینڈ کی مساجد میں نمازیوں کے قاتل کو فی الفور سزائے موت دینے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ اس گھناﺅنے جرم پر قاتل کو کئی برس تک جیل میں ڈالنا یا اسے سزائے عمر قید دینا کافی نہیں ہوگا۔
الجزیرہ کے کالم نگار اور سیاسی تجزیہ نگار خالد المالک نے سوال اٹھایا کہ اگر قتل عام کا مذکورہ واقعہ عیسائیوں کے گرجاگھر یا یہودیوں کے صومعہ میں ہوتا تو میڈیا کا ردعمل کیا ہوتا؟ آیا ایسی صورت میں ہلکے پھلکے انداز میں دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت پر اکتفا کیا جاتا یا بڑے پیمانے پر اس کیخلاف ہنگامہ برپا ہوتا۔ المالک نے توجہ دلائی کہ افسوسناک زمینی حقیقت یہ ہے کہ انسانیت سوز جرائم پر ردعمل کے سلسلے میں بھی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ نمازیوں کے قاتل سے پوچھ گچھ ہوگی، اسے مجرم گردانہ جائے گا اور چند برس یا عمر بھر قید کی سزا دینے پر اکتفا کرلیاجائے گا۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ بے قصور عبادت گزاروں کا حق لینے کیلئے اسے جلد از جلد تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ اگر اس کے برعکس عدالتی فیصلہ آتا ہے تو وہ ایک طرح سے انتہاءپسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
المالک کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک نے نمازیوں کے قتل عام کے جرم کو ابلاغی اور سیاسی حلقوں میں وہ کوریج نہیں دی جس کا وہ حقدار تھا۔ المالک نے کہا کہ یورپی ممالک کی دہشت گردی داعش کی دہشت گردی سے کہیں زیادہ پرخطر ہے۔ الحیاة اخبار کے کالم نگار خالد دراج نے کہا کہ مذمت کے بیان عوامی غصہ کو کنٹرول کرنے کیلئے ہیں اور بس۔
الجزیرہ کے کالم نگار عبدالعزیز السماری نے کہا کہ اگر کوئی مسلمان ایسے میں ملوث ہو تو اسے جس طرح سے اچھالا جاتا ہے اس میں اور نیوزی لینڈ کے دہشت گرد کے جرم کی کوریج میں زمین و آسما ن کا فرق ہے۔