ایمسٹرڈم : نیدر لینڈ کی حکومت نے بوسنیا کی جنگ کے دوران سریبرینیتسا کے دفاع کے لیے بھیجے گئے سینکڑوں سابق فوجیوں سے معافی مانگ لی ہے۔ وزیر اعظم مارک روٹے نے کہا کہ فوجیوں کو سریبرینیتسا میں قتل عام کو روکنے کے لیے بہت کم دفاعی صلاحیت سے لیس کیا گیا تھا اس واقعہ میں 5 دن میں 8 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق وسطی نیدرلینڈز کے ایک فوجی اڈے پر سابق فوجیوں سے بات کرتے وزیراعظم مارک روٹے نے قبول کیا کہ ڈچ بیٹ تھری امن فوج کے دستوں نے جدوجہد کی تھی کیونکہ آپ کا مینڈیٹ، آپ کا سازوسامان اور آپ کو اپنے مشن کے دوران ملنے والی فوجی مدد سب ناکافی تھا۔ جس کی وجہ سے مشن کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا بالآخر ناممکن ثابت ہوا۔
وزیراعظم نے سابق فوجیوں سے کہا کہ ‘آج، میں نیدرلینڈز کی حکومت کی جانب سے ڈچ بیٹ تھری کی تمام خواتین اور مردوں سے معافی مانگتا ہوں۔ یہاں آپ سب سے اور ان لوگوں سے جو آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ جولائی 1995 میں بوسنیائی سرب فورسز کی جانب سے نسل کشی کی مہم کے دوران ہزاروں مسلمان بوسنیا کے شہر سریبرینیتسا میں اقوام متحدہ کے محفوظ علاقے کی طرف چلے گئے تھے۔ انھیں نیدرلینڈ کے بہت ہی کم اسلحے سے لیس فوجیوں نے تحفظ فراہم کیا۔ ان فوجیوں کو بعد میں کمزور دفاعی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے بوسنیائی سرب فوجیوں نے گرفتار کر لیا تھا۔
نیدرلینڈز کی افواج کے ہتھیار پھینکنے کے بعد جنرل راتکو ملاڈچ کے ماتحت بوسنیائی سرب فوجیوں نے 12 سے 77 سال کی عمر کے مسلمان مردوں اور لڑکوں کو ایک طرف کیا اور اعلان کیا کہ ان سے تفتیش کی جائے گی۔
اگلے پانچ دن میں راتکو ملاڈچ کے فوجیوں نے آٹھ ہزار سے زیادہ بوسنیائی مسلمانوں کو مار کر اجتماعی قبروں میں دفنا دیا۔ سربیا نے ہمیشہ ان ہلاکتوں کو نسل کشی کی مہم کا حصہ قرار دینے سے انکار کیا ہے لیکن اسے ایک جرم تسلیم کیا ہے۔