بدیع الجمال چرواہے اور اسکے خاندان کو لیکر پران دریا کے کنارے سے ہوتے ہوئے میندھروں کے ٹیلے ( ڈگری سے 8 کلومیٹر جنوب پر) سے زرا دوری پر دوسرے کنارے آباد ہوگئی وہاں پر ایک محل نما گھر بنایا اور اس میں رہنے لگ گے ( اس محل کی جگہ اب ایک مٹی کا ٹیلہ ہے اس مٹی کے ٹیلے پر ہاتھ سی بنی بڑی قدیم ٹائلوں کی باقیات اب بھی ہیں)
یہاں قیام کے ساتھ ہی بدیع الجمال نے محافظ بھی رکھ لیے اور ساتھ ہی محافظوں کو پران دریا پر چوکی بنا کر بیٹھا دیا جو ہر گزرنے والے سء محصول وصول کرتے تھے ( قدیم پران دریا کے کنارے علاقوں کے سردار اس طرح کی چوکیاں قائم کرکے قافلوں سے محصول لیتے تھے کیونکہ دریا کا بہاؤ ہونے کی وجہ سے یہ تجاری اور سفری قافلوں کا راستہ تھا)
ان محافظوں کو بدیع الجمال نے ہدایت بھی جاری کی ہوئی تھی کہ سیف الملوک کا قافلہ جب بھی یہاں سے گزرے تو اسے جانے نہیں دینا اسے ایک مرتبہ محل میں ضرور لانا۔کافی عرصے کے بعد ایک دن سیف الملوک کشتیوں کے زریعے پران دریا سے ہوتا ہوا اس علاقے میں آٰٰیا تاکید کے مطابق محافظوں نے قافلے کو روکا سیف الملوک سے محافظوں نے کہا کہ ہمارا راجہ آپ سے ملنا چاہتا ہے ـ سیف الملوک راجہ ( چرواہے) سے ملنے سے راضی ہوگیا ۔
بدیع الجمال کو جب سیف الملوک کے آنے کی خبر ہوئی تو اس نے ایک منصوبہ بنایا. انتظار گاہ کے عقب میں غسل خانہ تھا اس نے چرواہے سے کہا تم غسل کرنے لگ جاؤ اور اپنی جوتیاں غسل خانے سے فاصلے پر اتارنا. چرواہے نے منصوبے کے مطابق ایسا ہی کیا، چرواہا نہا رہا تھا جب سیف الملوک انتظار گاہ میں پہنچا ملازم سیف الملوک کو انتظار کرنے کا کہہ کر چلا گیا. چرواہا جیسے ہی غسل سے فارغ ہوکر باہر آیا تو اس نے دیکھا اسکی جوتیاں فاصلے پر ہیں تو اس نے سیف الملوک سے کہا کہ یہ میری جوتیاں اٹھا کر قریب کردیں ادھر کوئی ملازم نہیں ہے تو سیف الملوک نے خوشامد کی خاطر جوتیاں اٹھا کر قریب کردیں یہ سارا منظر بدیع الجمال پردے کے پیچھے سے دیکھ رہی تھی.
چرواہاں تیار ہوکر سیف الملوک کے قریب آیا اس سے ملا پھر چرواہے نے نوکروں سے کہا کہ کھانے کا بندوبست کیا جائے میں اور مہمان کھانا ساتھ کھائیں گے.کھانا لگ گیا جب کھانا لگ گیا تب بدیع الجمال کو بھی مدعو کیا گیا جب سیف الملوک کی نظر بدیع الجمال پر پڑی تو اس کے ہوش گم ہوگئے.( سیف الملوک نے چرواہے کو ٹیلے پر سے دور سے دیکھا تھا اس لیے اسے پہنچان نہیں سکا تھا)
سیف الملوک نے بدیع الجمال کو پہچان تو لیا مگر پھر بھی تصدیق کے لیے پوچھا میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے جس پر بدیع الجمال نے کہا جی واقعی آپ نے مجھے دیکھا ہے پھر بدیع الجمال نے اپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی چرواہے کا بھی تعارف کروایا.اور سیف الملوک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی چرواہا ہے جو بکریوں کے ساتھ لیٹ کر پانی پیتا تھا لیکن آج اس کی جوتیاں آپ نے اٹھا کر دی ہیں اب آپ بتائیں یہ صحبت اثر ہے یا نسلی اثر ہے.یہاں سیف الملوک کو اپنی غلطی کا احساس ہوا. اور اس نے کہا.کہ.میں نے بہت بڑی غلطی کی. پھر سیف الملوک نے.بدیع الجمال سے پوچھا کیا آپ نے اس کے ساتھ شادی کی ہے جس پر بدیع الجمال کا جواب نفی میں دیا اور کہا میں نے بچوں اور.چھوٹے بھائی کی طرح صرف آپ کو بتانے کے لیے کہ صحبت انسان کو کس طرح بدل دیتی ہے اسکی تربیت کی ہے۔
اسکے بعد سیف الملوک اور بدیع الجمال میندھر کے ٹیلے کے سامنے دوسرے کنارے جو کہ ڈگری سے 8 کلومیٹر دور جنوب میں قائم محل پر قیام کیا اور زندگی کے آخری آیام تک یہاں رہے اور یہاں ہی انکی موت ہوئی. اس علاقے میں مٹی کے ٹیلے کے قریب ہی دو قبریں ہیں جن کے حوالے سے مورخین کا یہ خیال ہے کہ یہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کی قبریں ہیں جبکہ مقامی لوگوں نے ان قبروں کو پختہ کیا ہوا ہے قبروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ اس کی دیکھ بھال کرتے آئے ہیں اور اسکی تعمیر نو ہوتی رہی ہے. جبکہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کا قصہ کہانیوں میں زندہ ہے مگر انکا محل منو مٹی تلے دب کر قصہ پارینا ہوگیا ہے.
دریائے سندھ کا پرانا بہاؤ کا راستہ پران کا کنارہ ہزاروں سے جگہ جگہ تاریخ کے ان گنت نشاں اور راز اپنے اندر دفن کیے ہوئے سندھ کی اس تاریخی تہذیب کو مٹھی بھر لوگ لفظوں کی صورت کتابوں میں محفوظ تو کررہے ہیں لیکن حکومتی عدم دلچسپی اور نادر قیمتی لوگوں کو ضایع کررہی ہے اور دوسری طرف نئی نسل کی کتاب اور تاریخ سے دوری اس تاریخ کو نئی نسل کے سینوں سے دور کررہی ہے.
اس پوری کہانی کے لیے میں زاہد کمہار، سید منظور شاہ لکیاری اور آغاروزامان مرغزانی کا بھی مشکور ہوں جن کی وجہ سے اس تحریر کی صورت یہ پران کنارے کی تاریخ لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔(ختم شد)
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)