میں تو کہتی ہوں سیاست کو چھوڑیں ، ساری سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک نیا ’’میثاق معیشت‘‘ لے آئیں، سارے مسئلے خود بخود حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ کیوں کہ سیانے کہتے ہیں ’’جس گھر دانے اْس کے کملے وی سیانے‘‘ مطلب اگر پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا تو دنیا بھی یقینا پاکستان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھے گی۔ اس کے لیے ایک ایک کرکے ہر ادارے اور ہر سیکٹر میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے سیاحت کو ہی لے لیں۔ دنیا میں کورونا کے بعد سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ حتیٰ کہ عید الاضحی پر بھی وہ رش دیکھنے میں نہ آیا جو گزشتہ برسوں میں دیکھنے میں آتا تھا، وجہ! سہولیات کا فقدان، مہنگائی یا عوام کی عدم دلچسپی! کسی کو علم نہیں!چلیں وجوہات کو بھی چھوڑیں صرف اتنا سْن لیں کہ امریکا نے اس سال سیاحت سے 210ارب ڈالر کمائے، سپین نے ایک سال میں سیاحت ہی سے68ارب ڈالرکمائے ، فرانس نے 61ارب ڈالر، تھائی لینڈ نے 58ارب ڈالر، برطانیہ نے 52ارب ڈالر، اٹلی نے 45ارب ڈالر، آسٹریلیا نے 42ارب ڈالر، جرمنی نے 40، جاپان نے 35، چین نے 33ارب ، انڈیا نے 29ارب اور ترکی نے ایک سال میں سیاحت سے 24ارب ڈالر کمائے۔ جبکہ اس فہرست میں پاکستان نے ایک سال میں صرف 35کروڑ ڈالر کمائے۔یعنی ہم سیاحتی سہولیات فراہم کرنے والے ممالک میں بھی سب سے پیچھے ہیں۔
یقین مانیں اگر ہم سیاحت کو فروغ دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بہت بڑا زرمبادلہ کما سکتا ہے، مگر ہماری قسمت ایسی کہاں کہ ہم بھی اپنے سیاحتی، تاریخی اور خوبصورت مقامات کو ’’بیچ‘‘ سکیں۔ ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ سیاحوں کو کیا کیا چیزیں راغب کرتی ہیں، حالانکہ آپ اْن ممالک کو سٹڈی کریں جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ اور پھر سیّاحوں کو جو چیزیں اپنی جانب کھینچتی ہیں ان میں قدرتی حسین مناظر، تاریخی عمارتیں اور علاقے، نایاب اشیا، قدیم روایتی تہوار، مذہبی اور روحانی مقامات اور نامورشخصیات کی آخری آرام
گاہیں اور کسی حد تک مشہور پسندیدہ شخصیات سے وابستہ علاقوں کی سیر وغیرہ شامل ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے کے وہ سارے لوازمات رکھتا ہے جن کا ذکر ابھی کیا گیا ہے۔
الغرض پاکستان میں سیاحت کا ایک جہان آباد ہے۔لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں سے اسے برباد کر رکھا ہے۔غیر ملکی سیاحوں کی آمد تو ویسے ہی محدود ہو چکی۔ کچھ حالات ایسے تھے اور کچھ ہمارے سفارت خانوں کی نا اہلی۔ آپ دنیا کے کسی پاکستانی سفارت خانے کو ای میل کر کے دیکھ لیجیے کہ میں پاکستان جانا چاہتا ہوں وہاںکے سیاحتی مقامات کے بارے میں کچھ رہنمائی کر دیجیے، برسہا برس بعد بھی ڈھنگ کا جواب مل جائے تو بتائیے گا۔ دوسری جانب بھارت ہے وہ دنیا بھر میں اپنے سیاحتی امکانات کے حوالے سے ہمہ جہت مہم چلائے ہوئے ہے۔ ہم ابھی تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ سیاحت میں کتنے غیر معمولی معاشی امکانات چھپے ہوتے ہیں۔ مقامی سیاحت بھی افراتفری اور عبرت کا مجموعہ بن چکی ہے۔ ہماری سیاحت کی کل متاع کا غالب حصہ مری سوات اور ناران پر مشتمل ہے۔ نہ کسی نے سیاح کو بتانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ ان مقامات کے علاوہ اور کیسے کیسے شاندار مقامات موجود ہیں جہاں آدمی جائے تو ششدر رہ جائے اور نہ کسی نے کہیں بھی کوئی منظم انداز سے سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک زمانہ تھا ناران اور خانس پور خاموش سی بستیاں ہوا کرتی تھیں۔اب جس کا جہاں جی چاہتا ہے بے ڈھنگا سا بد بودار سا ہوٹل کھڑا کر دیتا ہے۔ ناران تو اس وقت راجہ بازار بن چکا ہے۔سہولیات نہ ہونے کے برابر اور قیمتیں آسمانوں کو چھوتی۔ مری میں اس ساری بدذوقی کے ساتھ ساتھ بد سلوکی اور بدزبانی کی شکایات الگ سے کی جاتی ہیں۔ ہر طرف غلاظت بکھری ہوتی ہے۔ گلیات کو اس میں استثناء ہے اور یہاں صفائی کا بہترین انتظام ہے لیکن دیر مقامات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ مہوڈنڈ جھیل میں بچوں کے پیمپر تیر رہے ہوتے ہیں،جھیل سیف الملوک ریپرز ، شاپرز اور پیپمپرز سے آلودہ ہو چکی ہے ، فیری میڈوز جیسی خاموشی میں ہوٹل بننا شروع ہو گئے ہیں اور چراگاہ میں گندگی پڑی ہوتی ہے۔بیسل جیسا شاندار مقام آلودہ کر دیا گیا ہے۔یوں لگتا ہے خلق خدا سیاحت کو نہیں نکلی ، فطرت سے انتقام لینے نکلی ہے۔ آپ سیاحت کو نکلیں ، فیملی کے لیے راستے میں کہیں کوئی ٹائلٹ نہیں ملے گا۔ مرد حضرات تو جہاں چاہیں غلاظت پھیلانے بیٹھ جائیں گے لیکن اس معاشرے نے ابھی یہ تہذیب نہیں کہ مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے مسائل کو بھی سمجھ سکے۔ گلیات کی طرح سڑک کنارے فیملی ٹائلٹس بنائے جا سکتے ہیں۔اگر سیاحت کا شعور ہو۔شعور کا مگر یہ عالم ہے کہ اوباشوں کی ٹولیاں پھر رہی ہوتی ہیں اور سر راہ اونچی آواز میں میوزک لگا کر جھومنا شروع کر دیتی ہیں۔کوئی اعتراض کرے تو صوبائیت اور لسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے کہ ہمارے کلچر پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔
لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ وہ پی ٹی ڈی سی ہوٹلز میں بہترین سہولیات مہیا کرکے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرے، دنیا میں جتنے بھی سیاح دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں وہ سب سے پہلے سرکاری رہائش گاہوں، ہوٹلوں کا انتخاب کرتے ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت سیاح کی حفاظت بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور سیاح بھی سب سے پہلے جن سہولیات کو دیکھتا ہے اْن سب سے پہلے وہ یہ دیکھتا ہے کہ جہاں وہ جا رہا ہے وہ علاقہ کتنا محفوظ ہے، وہاں تک پہنچنے اور گھومنے پھرنے میں کتنی آسانیاں ہیں، مقامی طور پر کیا کیا سہولیات ہیں بشمول گائیڈ اور لوگ سیاحوں کی طرف کس حد تک دوستانہ رویہ رکھتے ہیں، علاقے میں ذرائع آمد و رفت کے کیا انتظامات ہیں اور حفظانِ صحت کی صورتِ حال کس حد تک تسلی بخش ہے، غیر ملکی کرنسی کی مقامی کرنسی میں تبدیلی کے مراکز مناسب جگہوں پر موجود ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی طبی امداد اور ریسکیو کا نظام کتنا فعال ہے۔ پاکستان میں بلا شبہ وہ تمام عناصر موجود ہیں جو کسی غیر ملکی سیاح کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی اونچی برفیلی چوٹیوں کو چھونا چاہتا ہے تو آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ پہاڑ جو eight thousanders کہلاتے ہیں، چیلنج کرتے ہیں کہ آئو ہمیں سر کرو۔ ایک دو نہیں بلکہ دنیا کے آٹھ ہزار میٹر بلند کل 14 پہاڑوں میں سے پانچ پاکستان میں شان سے ایستادہ ہیں۔لیکن ضرورت پھر وہی کہ میثاق معیشت لے آئیں سب کام ٹھیک ہوتے جائیں گے!