لاہور: معروف شاعر ساغر صدیقی کو مداحوں سے بچھڑے 47 برس بیت گئے ،اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔
ساغر صدیقی نے 1928ء میں بھارتی شہر انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ خاندانی نام محمد اختر تھا ۔ ساغر کو غربت وراثت میں ملی تھی ۔ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا لیکن محلے کے ایک بزرگ کی صحبت میں وقت گذارنے کی وجہ سے لکھنا پڑھنا سیکھ ہی لیا تھا ۔
ساغر کم عمر میں ہی محنت مزدوری کے حصول کے لئے امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، اسی دوران خود ساختہ اشعار ان کے منہ سے نکلنا شروع ہوگئے اور اکثر قریبی دوست کام کے دوران شعر سنانے کی فرمائش کرتے ۔
ساغر ایک چائے کے ہوٹل میں اکثر لوگوں کو شعر سنایا کرتے تھے ایک روز ہوٹل کے مالک نے اپنے ایک دوست سے ساغر کو ملوایا جس کے بعد 1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرے میں ساغر کو شرکت کا موقع ملا گیا ۔
ساغر کی آواز میں بلا کا سوز اورایسی روانی تھی کہ پہلے ہی مشاعرے میں ان کا نام ہوگیا اور پھر وہ باقاعدگی سے لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ بلانے جانے لگے ۔
تقسیم ہند ہوا تو وہ لاہور چلے آئے ۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں شرکت کے سبب آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شائع ہونے لگا۔
اسی مقبولیت کے زمانے میں ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔
الفاظ کی آمد کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن ساغر کا حلیہ اور صحت خراب ہوتی چلی گئی پیسہ بھی آتا لیکن وہ نشے کی نذر ہوجاتا اور وہ اپنے اردگرد سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ۔
اس زمانے میں بھی جب لوگ انھیں ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کو پذیرائی بھی ملتی اور پیسہ بھی ۔
لیکن جیسے جیسے نشہ غالب آتا رہا پیسہ ضائع ہوتا رہا اور ساغر صدیقی کی صحت جواب دیتی چلی گئی ۔
ایک وقت آیا کہ جب انہیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں دیکھا جانے لگا اور وہیں قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ساغر نشے کی رقم کے لئے لوگوں کو کلام لکھ کر دیتے اور وہ بہت سے لوگ اپنے نام سے اخبارات میں چھپواتے۔
ساغر صدیقی کی روز بروز حالت خراب لیکن کلام مقبولیت کی منازل طے کرتا چلا جارہا تھا ۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔
ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر صدیقی نے دَم توڑ دیا۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔