جونہی عید قرباں قریب آتی ہے ایک خاص طبقہ کے دل میں جانوروں اور غرباء کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے،اِنکی معاشی حس بھی بیدار ہو جاتی ہے،یہ کیلکولیٹر لے کر بیٹھ جاتے ہیں،اور اپنی دانائی سے اس رقم کا حساب کتاب کرتے ہیں،جس سے جانوروں کی خریداری کی جاتی ہے جن کو اللہ کی راہ میں بخوشی مسلمان قربان کر تے ہیں،یہ دیوار کی دوسری طرف سوچتے ہیں کہ اگر اس سرمایہ کو انسانی فلاح کے لئے خرچ کیا جائے تو انسانیت کا بھلا ہو سکتا ہے،اس بے حاصل مشق میں وہ بُھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بنا یا ہوا یہ قانون ہے، ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،جس خدا نے اِس مخلوق کو پیدا کیا ہے، بھلا اس سے زیادہ کون انسانیت کا محسن، ہمدرد،غم خوار ہو سکتا ہے۔
نجانے اس قماش کے لوگوں کا بلڈ پریشر اِن بے سروساں افراد،خواتین، اور بچوں کو دیکھ کر کیوں ہائی نہیں ہوتا،جوعالمی سماجی ناانصافی، معاشی ناہمواری کی بدولت بھوک اور ننگ کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پوری دنیا میں یہ تعداد لاکھوں میں،اس گلوبل ولیج میں رہتے ہوئے بھلا یہ کس طرح لا علم رہ سکتے ہیں،کہ اس عالم میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی بہت سے مسائل کی جڑ ہے،عالمی وسائل پر طاقت وروں کے قبضہ نے عام انسان کے لئے دُنیا جہنم بنا کے رکھ دی ہے،قربانی کے موقع پر بیدار ہو نے والا انسانی ہمدردی کا جذبہ سال بھر کیوں ماند پڑ ا رہتا ہے،بھوک سے بلکتے بچے، چھت سے محروم انسان، عصمت دری کا شکار خواتین روزانہ کی بنیاد پر اس سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں،جس میں دولت صرف چندہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے،جنگ و جدل کا بازار گرم کرنے والے عام انسانوں پر جب بارود پھینکتے ہیں،تو اِس وقت اِنکی بے بسی عروج پر ہوتی ہے،جانوروں سے ہمدردی رکھنے والے کیا اِن انسانوں کو جانوروں سے بد تر خیال کرتے ہیں؟دنیا کے دولت مند افراد اپنی تجوریوں کا غرباء کے لئے منہ ڈھیلا کر کے سمجھتے ہیں کہ معرکہ سر کر لیا ہے۔حالانکہ ان کا اہم جرم تو دولت کا بے حساب جمع کر نا ہی ہے۔
انسانیت کے اِن نام نہاد ہمدردوں کی خدمت میں ہم عرض کے دیتے ہیں کہ اللہ کا عطا کردہ نظام خالصتاً انصاف پر مبنی ہے، اس نے ایسا دین عطا کیا ہے جو فطری بھی ہے اور روحانی تسکین کا منبع بھی۔
تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو اللہ تعالی ٰ نے سنت ابراہیم کو اس کلچر کے مطابق زندہ رکھا ہے جو اس وقت عرب میں رائج تھا، عہد جہالت میں عکاظ کے میلہ میں اونٹ اور دیگر جانور قربان کر کے جشن منایا جاتا تھا،شباب اور کباب کے بغیر یہ میلہ اَدھورا سمجھا جاتا تھا، یہ قربانی لات اور منات، بتوں کے نام کی ہوتی تھی،اللہ تعالیٰ نے تمام خرافات سے پاک کر کے اس قربانی کو اپنے لئے خالص کر دیا،اس بڑھ کر اور کیا ناشکری ہوگی،اللہ کے دیئے ہوئے مال کو کسی اور کے نام قربان کر دیا جائے۔
ایک لمحہ کے سوچیں بظاہر تو قربانی کی ایک رسم ہے لیکن اس سے وابستہ ایک بڑی معاشی سرگرمی کا قیام ہے،جو بیک وقت عالمی سطح پر وقوع پذیر ہوتی ہے، ایک جانور کے پالنے سے لے کر اس کو قربان کر نے تک بہت سے خاندانوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے،یہ سلسلہ یہاں ہی نہیں رکتا بلکہ قربانی کے بعد صنعت کا پہیہ حرکت میں آتا ہے، درآمدات ،برآمدات میں اضافہ بھی اس کے مرہون منت ہے ،اس کی بدولت سرمایہ گردش میں رہتا ہے،کسان سے لے کر مزدور اور صنعت کار تک، تعلیم یافتہ افراد سے لے کر دوکاندار تک سب اس سرگرمی کے طفیل مستفید ہوتے ہیں، گوشت کی غرباء میں تقسیم سے وہ سکون قلب ملتا ہے جس کا تصور بھاری بھر سرمایہ خرچ کر کے بھی ممکن نہیں۔
دین فطرت کا مطالعہ کے بغیر نجانے کیوں یہ طبقہ حرف تنقید میں راحت محسوس کرتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق سے زیادہ بندوں کے حقوق کو اولیت دی ہے،کسی بشری کمزوری کے باعث گناہ کے سرزد ہونے کاکفارہ ادا کرنے کا جو طریقہ وضع کیا ہے، دنیا کا کوئی معاشی نظام اس کا ثانی نہیں ہو سکتا،اللہ کا حق سلب ہونے کی تلافی کے لئے مالی ادائیگی کو لازم قرار دیا ہے جس کا مقصد غرباء کی مالی معاونت ہے،اسکی ایک صورت صدقہ، فطرانہ بھی ہے،زکوٰۃ، عشر، خمس کی فرضیت اس کے علاوہ ہے، جانور کی کھال کے ذریعہ غرباء کی مدد اس بات کی غماز ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے اس مالی عبادات میں مساکین ،غرباء کو بالواسطہ شریک رکھا ہے، جانور کو ذبح کرنے کے راہنما اصول بھی وضع کئے ہیں اِن میں سارا زور جانور کے تحفظ پر ہے۔
قربانی کے بغیر بھی ہزاروں جانور روزانہ گوشت کی غرض سے ذَبح کے جاتے ہیں اس میں انہیں اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے،قربانی کے بغیر چھوٹے جانو ر بھی ذبح کر لئے جاتے ہیں لیکن قربانی کے لئے جانور عمر تک کا تعین کیا گیا ہے، بھلا اِس طرح کے سنہری ضابطے کسی اور مذہب کا خاصہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے البتہ قربانی کے لئے خرید کئے گئے جانوروں کی نمودو نمائش کو ناپسند کیا ہے۔
جہاں ایک طرف نام نہاد انسانی ہمدرد قربانی کے فریضہ پر اپنے خبث باطن کو عیاں کر دیتے ہیں، وہاں کچھ تاجر دولت کمانے میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں، وہ قربانی کے جانور وں کی خریدو فروخت میں دھوکہ دینے سے بھی باز نہیں آتے، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں فربا کرنے کے لئے ایسی ادویات استعمال کرتے اور خوراک کھلاتے ہیں تاکہ فربا جانور کے زیادہ دام لے سکیں جس کے منفی اثرات گوشت پر پڑتے ہیں ،قربانی کا گوشت ان کے لالچ کی بدولت مضر صحت ہو جاتا ہے۔بے زبان اور قربانی کے جانورں کے ساتھ یہ سلوک اذیت ناک اور قابل تعزیر ہے۔
قربانی کی ساری سرگرمی رضاکارانہ اللہ کی رضا کے لئے ہوتی ہے یہ ایک قسم کی مالی عبادت ہے،جس کی انجام دہی میں سماج کے چھوٹے بڑے طبقات رزق تلاش کرتے ہیں ،قادر مطلق کا منشا بھی یہی ہے کہ بندہ اِپنی پسندیدہ چیز کو اسکی راہ میں قربان کر کے روحانی تسکین ،جزا آخرت حاصل کرے، اس وقت بھی دنیا میں اِن افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو روح کی تسکین کے لئے غیرفطری طریقہ جات استعمال کرتے ہیں ،جس میں انسانیت کی کوئی بھلائی پنہاں نہیں ہوتی، اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس کی مالی عبادات میں ساری اہمیت انسانی فلاح کو دی گئی ہے جو ہمہ قسم کے تکبر، لالچ،حرص،خودغرضی سے مبرا ہے،اس میں ایثار، ہمدردی،اخوت کا جذبہ پوشیدہ ہے۔
وہ تمام لوگ جن کے منفی جذبات قربانی کے موقع اُمڈ آتے ہیں، انہیں انسانی ہمددری کے لئے اِن قوتوں کے خلاف اَپنی صدا کو بلند کر نا ہوگا، جنہوں نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو چند ہاتھوں مرکوز کر کے ہر عمر کے افراد کو بھوک سے مرنے پر مجبور کیا ہے،انسانیت کے اصل مجرم وہ ہیں، ایک ایسی سنت جس کی ادائیگی سے پورے عالم میں معیشت متحرک ہوتی ہو،پیاری چیز اپنے خالق کے لئے قربان کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہو ،اِسکے خلاف لب کشائی لاعلمی، اور جہالت، تعصب کے سوا کچھ نہیں۔