موجودہ حکومت میں بزعم خود سیانے ترین اہم ترین عقل مند ترین حتیٰ کہ جہانگیر ترین اور شوکت ترین سے بھی زیادہ ذہین ترین وزیر شیخ رشید نے کچھ عرصہ قبل اپنے علم لدنی کی بنیاد پر کہا تھا کہ اپوزیشن ٹھس ہوگئی اس کے رنگ پسٹن بیٹھ گئے ہیں۔ حکومت کو اس اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ ان سے کچھ کم درجے عقل مند نے پوچھا پھر کس سے خطرہ ہے۔ کہا مہنگائی سے، سچی بات اپنے کہیں یا غیر چھپائے نہیں چھپتی۔ مہنگائی عروج پر، بلکہ آسمان دنیا کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی ہے۔ عوام آٹا دال گھی اور چینی خریدتے ہوئے پوچھتے ہیں حکومت کہاں ہے؟ حکومت قائم دائم ہے۔ کوئی اور حکومت ہوتی تو سرمنہ لپیٹ کر جنگلوں میں نکل جاتی یعنی اپنا رخ انور عوام کو نہ دکھاتی یہاں تو 24 گھنٹے ٹی وی چینلز پر چہرہ مبارک کی زیارت ہوتی ہے۔ بلکہ لگتا ہے کہ شیخ رشید نے 56 چینلز کی اجازت اسی حکومت کے لیے دی تھی۔ ’’دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے‘‘ کہ اپنا بندہ آئے گا لڈو پیڑے کھلائے گا۔ منت مانی تھی پوری ہوگئی۔ یہ الگ بات کہ سو پچاس کو چھوڑ کر 23 کروڑ عوام مہنگائی کے ہاتھوں زندگی سے بیزار ہیں۔ مہنگائی گزشتہ سال کے ہدف سے 3.4 فیصد زیادہ چودہ پندرہ فیصد 16 کے ہندسے کو چھو رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی طفل تسلیاں سمجھ سے باہر، چار فصلوں کی ریکارڈ پیداوار تب بھی مہنگائی میں روز بروز اضافہ، وفاقی بجٹ سے پہلے وزیر خزانہ کی یقین دہانیاں کہاں گئیں کہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ سترہ اٹھارہ دن بعد ہی مہنگائی کا طوفان، یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا 150 روپے چینی 17 روپے گھی 90 روپے مہنگا کردیا گیا۔97 فیصد عوام یوٹیلٹی اسٹورز کا رخ نہیں کرتے۔ ورنہ امن و امان کے لیے رینجرز پولیس طلب کرنا پڑے، بازاروں اور مارکیٹوں میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1150 سے 1200 روپے تک میں دستیاب، گھی 300 روپے کلو سے متجاوز، اقتصادی رابطہ کمیٹی کو اس کا احساس نہیں۔ سچ پوچھئے تو احساس ہے مگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق۔ آئی ایم ایف کے پلے پڑے ہیں تو زندگی اجیرن ہوگئی۔ پٹرول دو ماہ میں بڑھ کر 118 روپے لیٹر تک آ پہنچا۔ لوگوں نے کہا ملکی تاریخ میں پہلی بار اتنا مہنگا ہوا۔ روپے کی قدر ابھی تک ڈانواں ڈول ڈالر سے فری اسٹائل کشتی جاری لیکن 159، 158 پر برقرار، تاجروں اور صنعتکاروں نے واضح کیا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ سے اشیائے صرف کی پیدواری لاگت بڑھے گی۔ وزیر خزانہ سمیت رات دن تقریریں اور ٹاک شوز کرنے والوں کو بھی اس کا علم ہے لیکن اپنی اپنی مجبوری ہے۔ پیدواری لاگت بڑھنے سے قیمتیں کہاں بر قرار رہیں گی۔ بجٹ میں لگے خفیہ ٹیکس اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان نے گزشتہ روز ایڈوانس ٹیکس پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دوائوں کی قلت کا خدشہ ہے۔ ایسے میں دوائیںمہنگی
ہوں گی پہلے ہی ساڑھے 3 سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ عوام کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے وہ گھبرانے لگے ہیں گھبرا رہے ہیں۔ گھبراہٹ بڑھ گئی تو سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ تب حکومت کی گھبرانے کی باری ہوگی۔ اللہ نہ کرے کوئی واقعہ کوئی حادثہ کوئی سانحہ ہوا تو ماحول کو تبدیل کردے گا۔ تنکوں کی سرکشی سر چڑھ کر بولنے لگی تو انہیں شعلہ بننے سے کوئی نہ روک سکے گا۔ اس ہولناک منظر نامہ کے باوجود لوگ اپنے گرد مضبوط حصار کھینچے مطمئن بیٹھے ہیں بس ہفتہ میں ایک آدھ دن مطمئن کرنا پڑتا ہے یہ ہنر سیکھ لیا ہے یہی کمال ہے یہ ہنر نواز شریف کو نہ آیا ورنہ دیار غیر میں برگرز پر گزارہ نہ کرنا پڑتا۔ غور سے دیکھیں یہ ہنر آزمانے کے بعد چہرے مہرے سے اطمینان جھلکتا ہے چال میں دم ،(خم بالکل نہیں)، اللہ تعالیٰ مزید پانچ دس سال رخصت ہوتی جوانی اور ڈھلتا شباب قائم و دائم رکھے، لوگ حیران ہیں کہ تین سال کے موسموں اور حالات کی دھوپ چھائوں نے بال تک سفید نہیں کیے۔’’ وقت پیری شباب کی باتیں ایسے ہیں جیسے خواب کی باتیں‘‘۔ لیکن حسین خوابوں کی ان دیکھی تعبیر پر خوش تو ہوا جاسکتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں بڑھاپا اس وقت آتا ہے جب خود پر طاری کرلیا جائے، قسم اللہ پاک کی بڑھتی عمر نے حضرت کا کچھ نہیں بگاڑا۔ اسی لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ کسی نے کہا تھا ’’ہر آنے والی سانس کوئی معتبر نہیں، اس پل کے بعد دوسرے پل کی خبر نہیں‘‘ ہر دوسرے تیسرے دن چین کی بے پناہ ترقی کی مثالیں لیکن کبھی سوچا کہ اس کے لیے عزم مصمم، واضح ویژن اور مضبوط با کردار ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تینوں غائب، عزم مصمم کو این آر او لے گئے۔ اپنی ہی مافیاز نے سارے کس بل نکال دیے، بارہا بے چارگی کا اظہار، اپنے اردگرد کے لوگ اربوں کھا کر بھی آنکھیں دکھانے لگے۔ 32 ارکان کے گروپ نے سارے ارادے خاک میں ملا دیے۔ واضح ویژن کو یوٹرن کی ’’عظیم عادت‘‘ نے تباہ کردیا۔ مضبوط اور با کردار ٹیم کی روز اول سے کمی تھی۔ ورنہ 3 سال میں چار وزرائے خزانہ بدلنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ما شاء اللہ 34 سال میں سارے گفتار کے غازی اور گالم گلوچ کے ماہر ہی نکلے۔ تین سال بعد بھی چلے جانے والوں کو گالیوں کا تحفہ، فلاں غدار دوسرا بھگوڑا، بیٹی ڈاکو رانی، فلاں ترجمان تنخواہ دار ملازم، الفاظ کا چنائو نہ جذبات پر قابو’’ زبان بدلی تو بدلی تھی خبر لیجیے دہن بدلا‘‘ تحمل رواداری قریب نہیں پھٹکی۔ دوسروں پر لعن طعن، اپنی جھولی خالی، تین سال بعد بھی وہی رونا دھونا، یادش بخیر، رواداری اور تحمل مزاجی پر نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم یاد آگئے۔ پی ڈی پی کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے۔ اپنا روایتی لباس شیروانی، سر پر ترکی ٹوپی ہاتھ میں عصا تھامے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اپنے یہی شیخ رشید اس وقت ن لیگ میں تھے اور نواز شریف کی آنکھ کا تارا دل کا سہارا تھے۔ نوابزادہ صاحب کے داخل ہوتے ہیں شیخ صاحب نے آوازہ کسا کہ نوابزادہ صاحب چھڑی ٹیکتے ایوان میں آجاتے ہیں حالانکہ ان کی پارٹی ایک تانگے جتنی سواریوں پر مشتمل ہے۔ ایوان میں ان کا محض ایک ووٹ ہے جس پر سیاست کرتے ہیں، عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ نوابزادہ صاحب تڑپ اٹھے جواب میں کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن خاندانی شرافت، روایتی وضع داری چپ رہے اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، چھوٹے لوگوں کی چھوٹی باتیں، اللہ کی شان وہی شیخ رشید پورے ایوان میں ایک سیٹ، کسی نے نہ کہا کہ تانگے کی سواریوں جتنی پارٹی ہے۔ اپنا اپنا ظرف اپنی تربیت اپنی روایات، جب تک ان کے اپنے رنگ پسٹن مضبوط ہیں، حکومت کو سہارا دیے رہیں گے۔ لیکن کب تک مہنگائی بقول ان کے یہی حکومت کی دشمن ہے۔ اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ اندر باہر کے حالات الجھائو کی طرف جا رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں لوگ سوچنے لگے ہیں ،کام ہو رہا ہے کئی لوگ نظر کرم کے منتظر ہیں۔ اپوزیشن اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں لیکن سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں، نگہ انتخاب کسی پر پڑ گئی تو وارے نیارے ورنہ تبدیلی کے اندر سے کوئی تبدیلی لائے جانے کا امکانات ہیں۔ حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ان ہی واقعات و حادثات کی محتاج رہی ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں، ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔
مہنگائی اور تبدیلی کے اندر سے تبدیلی کا امکان
11:20 AM, 19 Jul, 2021