کابل: افغان طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے بعد سے انہوں نے کابل میں کوئی فدائی حملہ نہیں کیا، ہمارے بڑوں نے شہروں میں فدائی حملوں کے حوالے سے محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے، داعش کا عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے، خود کش حملے روکنے کے اعلان کا اطلاق فوجی اہداف پر نہیں ہو گا۔
جمعرات کو ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی نشریاتی ادارے ’دی نیویارک ٹائمز ‘ کیساتھ ٹیلی فونک بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بڑوں نے عام شہریوں پر فدائی حملے کرنے سے منع کیا ہے اور ہم اس پر پورا عملدرآمد کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد سے ہم نے کابل میں کوئی فدائی حملہ نہیں کیا۔ داعش کا عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ،ہم انہیں نست و نابود کر دیں گے۔
ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا کہ خود کش حملے روکنے کے اعلان کا اطلاق فوجی اہداف پر نہیں ہو گا۔ دوسری جانب نائب ترجمان افغان صدر شاہ حسین مرتضوی نے اس اطلاع پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی صفوں میں (سوچ کی) تبدیلی دیکھ رہے ہیں، اب شہروں میں خود کش حملے کم ہو رہے ہیں لیکن حملے ختم نہیں ہوئے ہیں، تاہم طالبان کی جانب سے خود کش حملے روکنے کے اعلان کے باوجود افغانستان میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش کی جانب سے کیے جانے والے خود کش حملوں پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور داعش کے جنگجو تواتر سے فوجی اہداف اور سرکاری تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے شہری علاقوں کو ہدف نہ بنانے کے بیانات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں، چونکہ حالیہ دنوں میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ آئی ہے ،عام شہری ایک ریکارڈ تعداد میں ہلاک و زخمی ہوئے اور اس میں یہ الزام عائد کیا گیا ان میں اکثریت وہ ہیں جو طالبان کے حملے میں ہلاک و زخمی ہوئے اگرچہ طالبان اس سے انکار کرتے ہیں۔"ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا حالیہ بیان بھی ان کی بارے میں اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش ہے۔ طالبان کی جانب سے ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ان کو عوامی حمایت حاصل رہے یا ان کے خلاف جو بات ہوتی ہے وہ اس کا موثر جواب دیں۔ ان کیلئے بہت ضروری ہے کہ انہیں مقامی حمایت حاصل رہے۔ طالبان کی شہرت اس وقت خراب ہوتی ہے جب وہاں خود کش حملے ہوں اور وہاں عام لوگ مارے جائیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ ماہ عید الفطر پر کی جانے والی جنگ بندی کے خاتمے کے ایک ماہ کے اندر اب تک سات خود کش حملے ہو چکے ہیں جن میں سے طالبان نے کسی ایک کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ البتہ داعش نے ان میں سے ایک کے سوا تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کی اور ان میں سے بعض حملوں کا نشانہ خود افغان طالبان بھی بنے۔ خود کش حملہ آوروں نے داعش سے لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے ایک طالبان رہنما کے لیے ہونے والی ایک دعائیہ تقریب کو بھی نشانہ بنایا تھا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے تو جو تمام عام شہری تھے افغان حکومت نے طالبان کو جنگ بندی کی مدت میں توسیع کی پیش کش کی تھی جسے امریکہ کی قیادت میں افغانستان میں تعینات عالمی فورسز کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن طالبان نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ خبر بھی پڑھیں:تخت لاہور کو بچانے کیلئے ن لیگ کا بڑی سیاسی جماعت سے رابطہ
افغان طالبان کی طرف سے شہروں میں خود کش حملے روکنے کی کی اطلاعات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب افغان صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر واضح کیا ہے طالبان عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر آنے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ افغان صدر نے 16 جولائی کو ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کی مخالفت کرنا ان کے بقول مذاکرات کے لیے کی جانے والی پیش کش سے "مکمل انکار" نہیں ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:25 جولائی کو فوج ضابطہ اخلاق کے تحت الیکشن کمیشن سے تعاون کرے گی: آرمی چیف
افغان صدر کا کہنا تھا کہ "یہ ایسے ہی ہے کہ جب آپ کسی کو شادی کی پیش کرتے ہیں تو لڑکی والے ہاں کہنے سے پہلے کئی بار ناں کہتے ہیں، حقیقت میں یہ ایسا ہی معاملہ ہے اور ہمیں ممکنہ طور پر مثبت جواب ملے گا۔"قبل ازیں طالبان صدر اشرف غنی کی طرف سے مذاکرات کو پیش کش کو مستر کر چکے ہیں ۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں