35 پنکچرز کی کہانی

35 پنکچرز کی کہانی

35پنکچر کی کہانی آپ نے سنی ہو گی۔ یہ کہانی اتنی بار دہرائی گئی ہے کہ لوگوں کو ازبر ہے۔ بقول عمران خان نجم سیٹھی نے انتخابات میں دھاندلی کے لیے 35 پنکچرز لگائے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو سیاسی قرار دیا اور معذرت کر لی۔ آج یہ کہانی اس لیے یاد آئی ہے کہ ایک بار پھر سے عبوری حکومت بننے جا رہی ہے جس کے لیے پنجاب میں قائم مقام وزیراعلی اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے اپنے اپنے نام دیے ہیں۔ ان میں ایک نام محسن نقوی کا بھی ہے جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ وہ پنجاب کے نئے عبوری وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ محسن نقوی کا نام ن لیگ نے دیا ہے تاہم چوہدری خاندان کے ساتھ ان کے خاندانی مراسم ہیں۔
35 پنکچرز اس لیے بھی یاد آئے کہ قومی اسمبلی میں سپیکر راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 35 اراکین اسمبلی کے استعفے قبول کر لیے اور الیکشن کمشن نے انہیں ڈی نوٹی فائی کر دیا۔ یہ اقدام بادی النظر میں تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی اور ممکنہ اعتماد کے ووٹ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہے۔ چند حلقے تحریک انصاف کو پارلیمنٹ کی راہ دکھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں ان کی باری پھر سے آ سکتی ہے۔ ایم کیو ایم ہمیشہ کی طرح حکومت سے الگ ہو کر بحران پیدا کرنے کی کوشش میں تھی اور ظاہر ہے یہ سب آنا فانا نہیں ہو رہا۔ سب کچھ ناپ تول کر کیا جا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی بساط بچھا کر بیٹھے ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان خالی ہونے والی 35 قومی اسمبلی کی نشستوں پر عمران خان ہی امیدوار ہوں گے۔ جمہوریت کا تماشا دھوم سے نکلے گا۔ سپیکر کی جانب سے جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں ان میں 33 ارکان کے ساتھ ساتھ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین بھی شامل ہیں۔جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں ان میں مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، پرویز خٹک، عمران خٹک، شہریار آفریدی، علی امین خان، نور الحق قادری، راجا خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام سرور خان، شیخ راشد شفیق، شیخ رشید احمد، منصور حیات خان، فواد احمد، ثنااللہ خان مستی خیل، محمد حماد اظہر، شفقت محمود خان، ملک محمد عامر ڈوگر، شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، فہیم خان، سیف الرحمٰن، عالمگیر خان، علی حیدر زیدی، آفتاب حسین صادق، عطااللہ، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان، نجیب ہارون اور محمد قاسم خان سوری شامل 
ہیں۔خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب عالیہ حمزہ ملک اور کنول شوزب کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے۔عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پی ٹی آئی اسمبلی سے بدستور باہر رہی تو حکومت اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نگراں حکومت کی تشکیل کریں گے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ فواد چوہدری ان استعفوں کی منظوری پر سپیکر کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور فرخ حبیب اس فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ "ہمارے استعفیٰ قبول کرنے کا شکریہ لیکن جب تک آپ 70 اور استعفیٰ قبول نہیں کرتے، لیڈر آف اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے تحریک انصاف کے پاس ہی آنے ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی تحریک انصاف کا حق ہے۔"
فرخ حبیب اسے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی کو جیسے معلوم پڑا پی ٹی آئی اسمبلی سے کٹھ پتلی راجا ریاض کو اپوزیشن لیڈر سے فارغ کرنے لگی ہے تو اس کے ساتھ ہی بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 35 استعفے قبول کر لیتا ہے اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن ڈی نوٹیفائی کردیتا ہے۔
یہاں یہ سوال ضرور اٹھا ہے کہ تحریک انصاف نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے اور اس کا اعلان شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے موقع پر کیا تھا، کیا ان 35 اراکین نے انفرادی طور پر اپنے استعفوں کی تصدیق کر دی ہے۔ امید ہے کہ سپیکر نے یہ عمل مکمل کیا ہو گا۔ اگر یہ عمل مکمل نہیں ہوا تو اسے بدنیتی پر مبنی قرار دیا جائے گا۔ زلفی بخاری کی اس بات میں وزن ہے کہ جیسے ہی عمران خان نے اسمبلی میں واپسی کا اشارہ دیا سپیکر نے اجتماعی طور پر 35 استعفے منظور کر لیے۔ تحریک انصاف کو ایک چھوٹی سی سیاسی غلطی کی وجہ سے اتنا نقصان ہوا ہے کہ  وہ اب ایوان میں اپنی عددی اکثریت کھو رہی ہے اور اس کے مخالفین جب چاہتے ہیں اسے نیا زخم لگا دیتے ہیں۔ 
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد کے پی اسمبلی کو بھی عمران خان نے اپنی ضد اور انا پر قربان کر دیا۔ ویسے اچھا ہے کہ دوبارہ سے انتخابات ہوں اور ایک ہی دن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے جان چھوٹے۔ عوام وقفے وقفے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں تاکہ پارٹیوں کو یہ احساس رہے کہ انہوں نے عوام کے پاس جانا ہے۔ 5 برس کے لیے ملک کو ٹھیکے پر دینے کا چلن ختم ہو گا تو ملک آگے بڑھے گا۔ 
عوام کے مزاج کو بدلتے دیر نہیں لگتی اور عوام زیادہ عرصہ تک خاموش بھی نہیں رہ سکتے۔ سندھ میں ہونے والے انتخابات میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح عوام نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے یہ پوزیشن حاصل کر لی ہے کہ وہ مئیر کا فیصلہ کرے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے تاہم جماعت دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دوسری بڑی جماعت ہے۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کا صفایا ہو گیا ہے۔
عمران خان کا راستہ مسدود کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ ایک لڑائی ایوان کے اندر ہو رہی ہے اور دوسری انصاف کے ایوانوں میں لڑی جا رہی ہے اور بقول شخصے میں نہیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے توہین الیکشن کمیشن کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر کو خبردار کیا ہے کہ اگلی سماعت میں عدم پیشی کی صورت میں یک طرفہ کارروائی کرکے فیصلہ سنا دیں گے۔یہ انتباہ اس وقت جاری کیا گیا جب گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل اسد عمر اور سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت میں شرکت نہیں کی تھی۔سندھ سے الیکشن کمیشن کے رکن نصار درانی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے اگلی سماعت میں بھی شرکت نہیں کی تو کمیشن اگلی سماعت میں فیصلہ سنا دے گا۔ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کے لیے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف درخواست کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے اکتوبر میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا تھا، اس کے علاوہ ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دیتے ہوئے عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
35 پنکچرز سے شروع ہونے والی کہانی اپنے انجام تک نہیں پہنچ رہی۔ دونوں طرف سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں نقصان صرف پاکستان کا ہو رہا ہے۔ ضد اور جھوٹی انا کی وجہ عوام پس رہے ہیں اور معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ کاش یہ سیاسی تعفن جلد ختم ہو جائے اور سب مل کر اس ملک کو سنوارنے کا جتن کریں۔