چند روز قبل مجھے لاہور سے قصور کا سفر کرنا پڑنا،دو رویہ بہترین سڑک جس کی کئی لینز ہیں درمیان میں گرین بیلٹ بھی کافی بڑی ہے مگر تجاوزات اور ہماری بے ہنگم ٹریفک نے ہمارا سفر عذاب بنائے رکھا،میرے ساتھ ایک سینئر صحافی،جج صاحب اور بڑے افسر بھی تھے،ہم سب اپنی اس حالت پر کڑہتے رہے اور آدھ گھنٹے کا یہ یکطرفہ سفر کئی گھنٹے میں طے ہوا۔
کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی ٹریفک کا مشاہدہ کر لیں آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ معاشرہ کے لوگ مہذب اور متمدن ہیں یا جاہل،اجڈ اور گنوار،یہ بھی بڑی حقیقت ہے کہ ٹریفک کے با سہولت بہاؤ میں تعلیم کا عمل دخل کم اور تربیت کا زیادہ ہوتا ہے،اگر سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم ہے کسی کو اپنی یا دوسروں کی زندگی کی فکر نہیں،وقت کے ضیاع کا احساس نہیں، کسی دوسرے کے نقصان کا خیال نہیں،قانون و قاعدے سے بھی بے پروا ہے تو جان لیجئے معاشرہ کے افراد کا تہذیب و تمدن سے کوئی علاقہ نہیں،ہمارا شمار بد قسمتی سے ایسے ہی معاشروں میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک کا نظام ہمیشہ درہم برہم رہتا ہے، ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والوں کی اکثریت ٹریفک کے قوانین اور اس کی اخلاقیات سے عاری ہے،بلا وجہ ہارن بجانا،غلط سائیڈ سے اوور ٹیک،تیز رفتاری،ایمبولینس یا پیدل چلتے کسی بزرگ کو راستہ دینا ہم توہین گردانتے ہیں،ٹریفک پولیس کی طرف سے کسی قاعدے کو توڑنے پر روک کر پوچھ گچھ کرنا بھی ہمارے مزاج پر گراں گزرتا ہے،ہسپتال،تعلیمی اداروں کے باہر بھی ہم ہارن دینے کے شوق کو بے دریغ اپناتے ہیں،کسی روک ٹوک پر مرنے مارنے کو نکل جاتے ہیں، حکومت ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کئی کوششیں کر چکی مگر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا،ٹریفک پولیس کا الگ سے ایک محکمہ ہے مگر وہ بھی بے بس دکھائی دیتا ہے،کہیں اثرورسوخ سے کہیں کسی بڑے عہدے دار سے،ٹریفک کے نظام کو خراب کرنے میں عوام نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور مسلسل کرتے ہیں اور ان کی ہمت تب مزید بڑھ جاتی ہے جب ٹریفک قوانین توڑنے والوں کو ٹریفک پولیس کی کالی بھیڑیں چند پیسوں کے عوض چھوڑ دیتی ہیں،ہم خود کو مہذب کہتے ہیں مگر یہ ثابت کرنے کے لئے ہمیں ٹریفک کے قوانین پر عمل پیرا ہونا ہو گا، ٹریفک پولیس کو بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہو گا تاکہ حادثات کی شرح میں کمی اور ان سے ہونے والے مالی اور جانی ضیاع کو روکا جا سکے،سچ یہ کہ ٹریفک کے نظام کو نظم و ضبط سے عاری کرنے میں صرف عوام ہی نہیں خواص اور کسی حد تک ٹریفک پولیس بھی ذمہ دار ہے۔
ٹریفک جام میں بھی ہارن بجانے والے، اپنی قطار کو توڑنے والے، بند ٹریفک میں اپنی گاڑی آف لائن کر کے آگے بڑھانے والے،لیفٹ سائیڈ سے تیز رفتاری سے اوور ٹیک کرنے والے،رانگ سائیڈ پر بھی تیز رفتاری ترک نہ کرنے والے اور کسی کو راستہ دینے کی بجائے راستہ لینے کیلئے تیزی دکھانے والے،ٹریفک سگنل کا احترام نہ کرنے والے،زیبرا کراسنگ کی پروا کئے بغیر ڈرائیونگ کرنے والے،لیفٹ سائیڈ کو بلاک کرنے والے ہر سڑک چوک چوراہے پر لا تعداد دکھائی دیتے ہیں،بزرگ،قانون کے محافظ انہیں دیکھتے رہتے ہیں،کوئی ان کی روک ٹوک کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا،بعض تو ایسے بے حس ہیں کہ ایمبولینس کو راستہ نہ دینا،تعلیمی ادارے یا ہسپتال کے سامنے ہارن بجانا بھی مشغلہ سمجھتے ہیں،اس روئیے کا تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں،یہ اس تربیت کا نتیجہ ہے جو ہمیں گھر،سکول سے نہیں بلکہ معاشرے سے ملتی ہے،کسی مہذب معاشرے سے آنے والے خواہ پاکستانی ہوں یا غیر ملکی ان کیلئے اس ٹریفک نظام میں ڈرائیونگ کرنا موت کے گولے میں ڈرائیونگ کے مترادف ہے۔
مہذب معاشرہ میں ہارن صرف اس وقت بجایا جاتا ہے جب اشارہ کھل جائے اور آگے والی گاڑی کا ڈرائیور فون پر مصروف ہو،کوئی ڈرائیور قوانین کی خلاف ورزی کرے اوور سپیڈنگ کا مرتکب ہو یا رانگ سائیڈ سے اوور ٹیک کرے تو اسے متنبہ کرنے کیلئے یہ مشقت کی جاتی ہے،یہ دراصل ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا ایک مہذب قرینہ ہے، جب کوئی شخص اس حال میں سڑک پر آجائے کہ حادثے کا امکان ہو تب بھی ہارن بجایا جاتا ہے۔
یوم آزادی منانا ہر معاشرے اور ملک کے شہریوں کا حق ہے مگر اس روز سعید ہمارے نوجوان جس مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی،پیسے پٹرول کو آگ لگانا تو ثانوی بات ہے اس روز نوجوان موٹر سائیکلوں گاڑیوں کے سائلنسر نکال کر جو طوفان بد تمیزی کرتے ہیں،ہارن پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول جاتے ہیں،خواتین سے بد تہذیبی،تیز رفتاری،کرتب دکھانا زگ زیگ ڈرائیونگ کرنا معمول ہے یوں اپنی زندگی بھی داؤ پر لگاتے ہیں اور دوسروں کیلئے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں۔
مہذب معاشرہ میں لوگ عمومی طور پر اپنی لائن میں گاڑی چلاتے ہیں، سیٹ بیلٹ سبھی لگاتے ہیں، ہر بالغ اپنے جرمانے کا خود ذمہ دار ہے، اس لئے گاڑی میں بیٹھنے والے سبھی مسافر سیٹ بیلٹ لگاتے ہیں، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر بھاری جرمانہ ہے،ٹریفک پولیس اہلکار وزیر گورنر اور صدر وزیر اعظم کا بھی چالان کرنے کا اختیار اور اخلاقی جرات رکھتا ہے۔ یورپ یا دیگر مہذب معاشروں کی مثال دینے پرکچھ لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہتے ہیں کہاں ایک مہذب پڑھا لکھا معاشرہ اور کہاں ایک ناخواندہ معاشرہ، لیکن کچھ 70 سے 80 سال پہلے یہاں پر بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا تھا مستقل کوششوں سے یہ لوگ ایسے نظام کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوئے جہاں قطار توڑنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے،غیر ضروری ہارن بجانا گالی تصور کی جاتی ہے، مگر ہمارے یہاں پر آج بھی جرمانے کے نام پر شہری سیخ پاہو جاتے ہیں۔
امریکہ و یورپ میں ہربچے کی کوشش ہوتی ہے کہ جونہی وہ سولہ یا اٹھارہ سال کا ہو تو ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرلے، ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرنے کے لیے تھیوری اور پریکٹیکل پر مشتمل 2 الگ امتحان میں کامیاب ہونا ہوتا ہے،تھیوری کے امتحان میں پرچہ حل کرنا ہوتا ہے،جس کے بعد پریکٹیکل یا عملی امتحان کی تیاری کے لیے آپ کو ایک تصدیق شدہ انسٹرکٹر کے ساتھ گاڑی چلانا ہوتی ہے،یہ بھی ایک طویل ٹیست ہوتا ہے جس میں لائسنس کے خواہشمند کی قوانین کے حوالے سے جانکاری بھی شامل ہوتی ہے،امتحان کے دن پولیس اہلکار آپ سے عملی ٹریفک میں گاڑی چلوا کر، گاڑی پارک کروا کر، گاڑی سے متعلق عام معلومات کا زبانی امتحان لے کر، پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد لائسنس جاری کرتا ہے، اس ڈرائیونگ لائسنس کو ایک شناختی کارڈ جتنی ہی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ٹریفک نظام کو مہذب بنانے کیلئے ڈرائیونگ کے اطوار سیکھنا بھی ہر ڈرائیونگ کورس کا بنیادی حصہ ہونا چاہیے، صرف گاڑی کو گئیر لگانا ہی ڈرائیونگ نہیں،اس حوالے سے اخلاقیات،قواعد اور قاعدے کا جاننا بھی لازم ہے،صرف ڈرائیورز کی نہیں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھی تظہیر اور تربیت کی اشد ضرورت ہے۔