میں جانتا ہوں کہ اس وقت صدارتی نظام کانعرہ کیوں اورکہاں سے آ رہا ہے۔ یہ نعرہ لگانے والے وہ ہیں جو مسائل حل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوچکے بلکہ ستر برسوں کے مسائل کو تین برسوں میں مزید گمبھیرکرچکے ہیں۔ یہ وہ منفرد ریاضی دان ہیں جو ستائیس ارب ڈالر کے قرضوں میں سے انتیس ارب ڈالر ادا کرنے کے بعد انہیں پچاس ارب ڈالر پر لے جا چکے ہیںسو ان کے پاس ایک ہی فیس سیونگ ہے کہ یہ نظام ہی غلط ہے۔ کپتان کے حامی وہ ہیں جو میٹرک جیسے آسان امتحان میں فیل ہونے کے بعد امتحانی نظام کی خامیاں نکال رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر کیمبرج کا سسٹم رائج ہوجائے توان کا خان ٹاپ کر جائے گا، نہیں دوستو، آپ گدلے پانی کوبالٹی سے نکال کر جگ میں بھی ڈال لیں تو وہ دودھ نہیں بنے گا۔یہ وہی گروہ ہے جسے ناچنا نہیں آتا تھا تو اس نے صحن کو غلط قرار دے کر وہ محاورہ ایجاد کروا دیا تھا، ’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘۔
میرے جیسے جذباتی آدمی کے لئے صدارتی نظام کی مخالفت کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ جب پاکستان ٹوٹا تواس پر صدارتی نظام مسلط تھا جس نے اکثریت کی آواز کو دبا دیا تھا۔ پاکستان کے مسائل کی بنیاد اسی روز مستحکم ہو گئی تھی جب چھپن کاآئین منسوخ کیا گیا تھا جو پارلیمانی نظام تجویز کرتا تھا۔ ایک آمر نے صدارتی نظام تجویز کیا تھا مگر جب وہ ناکام ہوا تھا تو اس نے اقتدار منتقل کرنے کے لئے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین سے روگردانی کی تھی۔ ہمارا تیسرا آئین تہتر کا تھا اور ایک بڑے سانحے اور حادثے کے بعد تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت بھی سب سیاسی قوتیں ایک ہی پیج پر تھیں اور ہم سب مل جل کر غدار بنگالیوں کوملک سے نکال چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی بنگالیوں کو اسمبلی کے اجلاس میں جانے پر ٹا نگیں توڑ دینے کی دھمکی کے کامیاب نتائج کے بعد ملکی یا شائد سیاسی تاریخ کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن چکے تھے۔ پاکستان ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ ون یونٹ کا قیام تھا جس نے پاکستان کی سیاسی اور ثقافتی اکائیوں کی شناخت تک ختم کر دی تھی۔
میں نے دیکھا کہ صدارتی نظام کا نعرہ علم سیاسیات سے نابلد نمونوں سے لگوایا جا رہا ہے ، ایسے ہی ایک محب وطن نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پولنگ شروع کر وا رکھی تھی کہ آپ کو صدارتی نظام چاہئے یا جمہوری نظام۔ اس جاہل کو یہ تک علم نہیں کہ صدارتی نظام، جمہوری نظام کا نہیں پارلیمانی نظام کا متبادل ہے۔سوشل میڈیا ایکٹی ویٹس اس پلیٹ فارم سے پولیٹیکل سائنس کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو عیدالاضحی پردیہاڑی باز قصائی کرتے ہیں۔وہ جانور کو یوں ذبح کرتے ہیں کہ گویا جھٹکا کر رہے ہوں، اس کی ہڈیاں چورا چورا کردیتے ہیں اور بوٹیوں کا ملبہ بنا دیتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے ایک سیاستدان بقراط کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ سابق دور میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی ہوا کرتے تھے جب میں نے ان کی کسی یونیورسٹی میں جھاڑی گئی ایک تقریر اخبار میں پڑھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے معاشی مسائل گمبھیر ہیں لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کو تاریخ او رسیاسیات جیسے مضامین پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں، ان سب کو انجینئرنگ پڑھائیں یعنی پلمبر، الیکٹریشن اور ٹھیکیدار بنائیں۔ میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب ہمارے نام نہاد بڑے اس آئی کیو لیول کے مالک ہوں گے تو پھر عام لوگوں کے بارے کوئی بھی گھٹیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہماری اخلاقیات اور سیاسیات کی تباہی کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے لوگوں کو صرف نوکری کرنے کے لئے ڈگریاں دی ہیں۔ یہ وہ گدھے ہیں جو کما تو رہے ہیں مگر انہیں تاریخ، مذہب ، سیاست اور سماج تک کا شعور نہیں ہے۔
تہتر کے آئین میں پارلیمانی نظام ایک گہرے زخم اور ایک بڑی ناکامی کے بعد تجویز کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہیں جن کی زبان او رثقافت تک سب جداجدا ہیں۔ پارلیمانی نظام آپ کو موقع دیتا ہے کہ ان تمام اقوام کو یکساں نمائندگی ملے۔ پارلیمانی نظام جہاں آبادی کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دیتا ہے وہاں صوبوں اور اقوام کی یکساں نمائندگی سینیٹ میں ہے۔ ہمارے پاس سٹڈی کے لئے دو ماڈل موجود ہیں، پارلیمانی نظام کا ماڈل برطانیہ جبکہ صدارتی نظام کا ماڈل امریکہ ہے۔ دونوں نظام اپنی اپنی جگہ پر پرفیکٹ ہیں ۔ صدارتی نظام میں صدر منتخب ہونے کے بعد ٹیکنوکریٹس یعنی ماہرین کو موقع دیتا ہے کہ وہ فیصلہ ساز بن کے مسائل حل کریں۔ ہم نے ان انتخابات کے بعدجس قسم کا پارلیمانی نظام اپنا یا ہے اس میں جناب عمران خان نے دنیا بھر سے عجوبے اکٹھے کر کے انہیں موقعے دئیے ہیں گویا حقیقت میں صدارتی نظام والا طریقہ ہی آزمایا ہے۔وہ ان سب نام نہاد ماہرین کے ذریعے کسی شعبے میںکوئی بہتری نہیں لا سکے اور اگر وہ پارلیمانی نظام کو کسی ڈنڈے کی مدد سے صدارتی نظام میں تبدیل بھی کروا لیتے ہیں توان کے پاس یہی نمونے ہوں گے اور میں پھر کہوں گاکہ آپ گدلے پانی کو جگ میں ڈال لیں یا بالٹی میں، وہ دودھ نہیں بنے گا اور اس سے بھی آگے یہ کہ آپ دودھ کو کسی بھی برتن میں رکھیں گے وہ دودھ ہی رہے گا، کیا سمجھے؟
میں تاریخ، سیاست اور صحافت کا ادنی طالب علم ہوں، میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت اپنی اصل صورت میں قابل عمل ہی نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو سیاست اور اقتدار کے کھیل میں کچھ او ر پارٹنرز کا کردار تسلیم کرنا ہو گا جسے وہ آف دی ریکارڈ تسلیم بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف مقتدر حلقوں کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی سلیکشن میں مزاحمت سے گریز اور وفاداری کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا میرٹ بھی ضرور ہونا چاہئے جس کا تعلق پرفارمنس او رڈیلیورنس سے ہو او ر وہ اپنا کردار ماسٹرز کے بجائے پارٹنرز تک محدود رکھیں۔پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کو بھی اس میں شئیر دیا جائے چاہے وہ تھوڑا بہت ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ کیک ہے جس کا سائز بڑھے گا تو سب کا حصہ بڑھ جائے گا۔ ہمیں فوری طو رپر وہ لوگ درکار ہیں جو اس کیک کا سائز بڑھا سکیں تاکہ سب کی بھوک ختم ہوسکے۔یہ زیادہ دیر ممکن نہیں رہے گا اور یہ کسی نئے نظام سے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ صرف ایک حکمران طبقہ کھاتا رہے۔
آپ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لائیں گے تو بنگالیوں کی طرح ان کی امید بھی ختم ہوجائے گی جو یہ سمجھتے ہیں کہ کل نہیں تو پرسوں اور پرسوں نہیں تو ترسوں انہیں بھی کچھ ملے گا۔ جب امید ختم ہوجائے تو انسان اور اس بلی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا جسے ایک کمرے میں قید کرکے بھاگنے کے تمام راستے بند کر دئیے گئے ہوں۔ عمران خان وہ ڈرائیور ہے جو پارلیمانی نظام کی سادہ سی کار نہیں چلا پا رہا اور اگر آپ اسے صدارتی نظام کی اختیارات سے بھری بس دے دیں گے تو وہ کیسے چلا پائے گا۔ ہمارا کام آپ کی خدمت میں سوچنے کے لئے عرضداشتیں پیش کرنا ہے۔ پاکستان کے مالک آپ ہیں، جو چاہیں کریں۔