ہم پالیسیاں تو بناتے رہتے ہیں لیکن عمل کی طرف کم ہی دھیان دیتے ہیں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی کابینہ منظوری دے چکی ہے جو بظاہر ہمہ پہلو ہے کاش اِس پر عمل بھی ہوجائے کیونکہ ہمارا ماضی اِس کا شاہد ہے کہ قیادت جو کہتی ہے وہ کہے تک ہی محدود رہتا ہے عمل کی نوبت کم ہی آتی ہے۔
اِ س میں شک نہیں کہ سلامتی کو لاحق خطرات کی نوعیت بدل رہی ہے اب دفاع کو محض فوجی حوالے سے دیکھنا درست نہیں کیونکہ خطرات سرحدوں سے آگے بڑھ گئے ہیں دفاع کے ساتھ معاشی سلامتی بھی اہم ہو گئی ہے آج وہی ملک مضبوط ،خوشحال اور مستحکم ہے جو تجارتی حوالے سے دنیا کے ساتھ جڑا ہے جس کے پاس وافر تجارتی مال ہے کیونکہ موجودہ دورمیں سلامتی کا تصور اکنامک سلامتی تک وسعت اختیار کر گیا ہے اسی لیے ففتھ جنریشن وار،ہائبرڈ وار اور جیو اکنامکس کی باتیں کی جاتی ہیں مگر ایک جمہوری ملک میں تمام فیصلوں کو پارلیمنٹ کی تائید حاصل ہوتی ہے جمہوری ملک میں جمہوری نظام کا کمزور ہونا بھی قومی سلامتی کے لیے خطرے سے کم نہیں۔
وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا ہے کہ عوام اگر ریاست کے ساتھ کھڑے نہ ہوں تو تو سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر وہ بدقسمتی سے قومی سلامتی کے بارے فیصلے کرتے ہوئے اپوزیشن کو نظر انداز کر جاتے ہیں حالانکہ اپنے کہے کا پاس کرتے ہوئے اگر رویے میں تھوڑی سی لچک پیداکرلیں اور سلامتی پالیسی پر داخلی سطح پراتفاق پیدا کرنے کی خاطر مناسب تدابیر اختیار کریں تو انھیں کوئی سیاسی خطرہ نہیں ہو سکتا البتہ ملک و قوم کا بھلا ہو سکتا ہے اگر اپوزیشن تعاون کے بجائے عدمِ تعاون کی راہ اختیار کرتی ہے تو عوام خود اُس کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں اِس طرح حکمران جماعت کو عوامی حلقوں میں پذیرائی مل سکتی ہے مگراپوزیشن حلقے قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث نہ لانے پر تنقید کر رہی ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
عمران خان کی اِس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک کمزور ہوتے ہیں اور معاشی کمزوری آئی ایم ایف جیسے اِداروں کی ایسی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو ملک کی سلامتی کے حوالے سے درست نہیں ہوتیں یہاں سوال تو یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی انتظامی اِداروں کے ذریعے حکومت یقینی بناتی ہے لیکن موجودہ دور میں کیا اِس حوالے سے کچھ کام ہوا ہے ؟بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ اِس حوالے سے موجود ابتری میں مزید اضافہ ہوا ہے کوئی بھی گروہ اُٹھ کر جب چاہے ریاست کو اپنی شرائط پرتصفیے پر مجبور کر سکتا ہے علاوہ ازیں پاکستان باربار قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے مگر ایسی معاشی پالیسی کا اجرانہیں ہو سکا جس سے عالمی مالیاتی اِداروں کے چنگل سے آزادی مل
سکے ابھی حال ہی میں ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر کی قسط لینے کے عوض سٹیٹ بینک کو خود مختاری دی گئی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے عام اور غریب آدمی پربوجھ مزید بڑھ گیا ہے جانے قومی سلامتی پالیسی بناتے ہوئے اربابِ اختیار اِس اہم پہلوکو کیوں نظر انداز کر گئے ؟علاوہ ازیں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے جوشہری کو ریاست سے متنفر کرنے کا باعث بنتی ہے ۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارتی خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوجی توازن قائم رکھنے کی کوشش کی اب بھی اِس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاتا لیکن دونوں ملکوں کے جوہری طاقت بننے سے براہ راست ٹکرائو کا امکان کم ہو گیا ہے اسی لیے بھارت خطرات کی نوعیت بدل رہا ہے اب و ہ پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اِس کے لیے کبھی افغانستان اور کبھی ایران کی سرزمین استعمال کرتا ہے روسی حملے سے سرحدی خطرات کے ساتھ منشیات واسلحہ کلچر آیا پھر جہادی گروہ خطرہ بنے بعد میں امریکی آئے تو ملک اور معاشرے کو مزید نئے تنازعات نے گرفت میں لیا کبھی روس اور بھارت دونوں ہمیں نقصان پہنچانے کے حوالے سے ایک تھے اب روس کے بجائے بھارت کی امریکہ سے شراکت داری ہے مقصد دنیا کے واحد اسلامی جوہری ملک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم بنا کر ایٹمی اثاثوں سے محروم کرناہے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مسلسل گرے لسٹ میں نام رکھنا اسی شراکت داری کا کمال ہے لیکن ہمہ پہلو خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم آج بھی یہ طے نہیں کر سکے کہ ہماری منز ل کیا ہے بلکہ فیصلے کرتے ہوئے کسی نہ کسی عالمی طاقت کی طرف دیکھتے ہیں جس سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی نہیں آ رہی۔
پاکستان نے طویل عرصہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا یہاں تک کہ روس کے خلاف جاسوسی کے لیے امریکی طیاروں کو اُڑان بھرنے کے لیے اڈے دیے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملوں کے لیے بھی فضائی اور زمینی حدود استعمال کر نے کی عام اجازت دی لیکن ملک کا فائدہ ہونے کی بجائے دہشت گردی کو فروغ ملا اسی ہزار انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود آج بھی پاکستان کو دہشت گردی کاسرپرست ایساملک کہا جا تا ہے جو دہشتگردوں کومالی مدد دیتا ہے اب ہم نے اپنا رُخ چین کی طر ف موڑ لیا ہے اورسی پیک کی صورت میں مستقبل خوشحال بنانے کے خواب دیکھنے لگے ہیں حالانکہ یہ منصوبہ محض تجارتی راستہ ہے لیکن چین کی طرف جھکنے سے دوبارہ ہم نے اپنے لیے خطرات بڑھا لیے ہیںجب تک فیصلے کرتے ہوئے ملکی مفاد کی بجائے عالمی مفاد کو ترجیح دینے کی پالیسی ترک نہیں کریں گے تب تک خطرات ختم نہیں ہو سکتے اگر قومی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے تو آزادانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور قومی سلامتی پالیسی بھی ہمہ جہت بنانا ہو گی تاکہ خطرات کی نوعیت کے مطابق توڑ کیا جا سکے۔
حکومتی سطح پر اعتراف کیا جا چکا کہ ملک خوراک میں خود کفیل نہیں رہامگر اِس حوالے سے ابھی تک عارضی اقدامات پر گزارا ہے اگلے چند برس میں خوراک کے ذخائر میں مزید کمی کا خدشہ ہے کیونکہ آبی قلت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن پالیسی سازابھی تک ٹھوس لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں کہنے کو ہمارا ملک زرعی ہے لیکن گندم ،چینی ،دالیں، مسالے اور خوردنی تیل تک درآمد کرنے پر مجبور ہیںمہنگائی اور بے روزگاری الگ مسئلہ ہیں جب تک قومی سلامتی پالیسی کو فوجی زاویے کے ساتھ عام شہری کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر ترتیب نہیں دیا جاتا معاشی اور تجارتی ترقی کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے تب تک قومی سلامتی کو لاحق خطرات نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ عالمی اِداروں کی نارواشرائط تسلیم کرنے پر بھی مجبور رہیں گے کرپشن کے خاتمے اورقانون کی حکمرانی کا قومی سلامتی سے گہراتعلق ہے مگرسیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کے بغیر کیے جانے والے فیصلے سود مند نہیں ہو سکتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ اگر ریاست نے اپنے وجود اور بقاکے تناظر میں ایک جامع اور متوازن نکتہ نظرکو اپناہی لیا ہے تو اِس کی جھلک معاشی پالیسیوں میں بھی نظر آنی چاہیے اب سمت کا تعین تو ہو چکا ترجیحات میں بھی تبدیلی لائی جائے تاکہ مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے ۔