دوستو، آپ نے روزمرہ کی گفتگو میں اکثر یہ تو سنا ہی ہوگا کہ۔۔ارے یار چار حرف بھیجو اس پر۔۔۔ یہ چار حرف کیا ہیں؟ مورخ تو بتاتا ہے کہ ۔۔ چار حرف سے مراد۔۔ل ع ن ت۔۔یعنی لعنت بنتا ہے۔۔ اردو کا محاورہ بھی ہے کہ۔۔ چار حرف بھیجنا۔۔ اس کا مطلب ہوتا ہے، لعنت ملامت کرنا، برابھلا کہنا۔۔شاعر کہتا ہے کہ۔۔ اس کے عوض تمہیں اب کچھ اور تو کہوں کیا، پر بھیجتا رہوں گا اک چار حرف تم پر۔۔ اسی طرح نظیرباقری نے ایک بار کہا تھا۔۔کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے،سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو۔۔اگر دیکھا جائے تو معاشرے کے چار،چار حرفوں پر مشتمل تین خوب صورت رشتے بھی ہیں۔۔عورت، بیوی اور بیٹی۔۔ ان تینوں رشتوں میں چار،چار حرف موجود ہیں۔۔ ان تینوں رشتوں میں کائنات کا حقیقی رنگ نظر آتا ہے۔۔جب کہ ایک چوتھا لفظ۔۔غیرت بھی چار حرف پر مشتمل ہوتا ہے۔۔مگر آج کے معاشرے میں غیرت ، عورت، بیوی اور بیٹی جیسے مقدس وجود اور کرداروں کے لئے دُشمن اور موت کا باعث بن چکا ہے۔ اگرچہ،غیرت کا حجم تو نہیں ہوتا ہے یہ اپنا وجود تو نہیں رکھتی ہے ا ور نہ ہی نظر آتی ہے مگر اِس کا احساس ضرورکیا جاتا ہے اورا کثر اِس لفظ غیرت ہی کی وجہ سے عورت، بیوی اور بیٹی کا اہم ترین کردار گھر کے مردوں کے ہاتھوں قتل کردیا جاتا ہے یوں خاندان کے کم ظرف اور کمزور بے غیرت مرد غیرت کا لبادہ او ڑھ خود کو غیرت مند گردانتے ہیں۔
لعنت کے چار حرفوں والی بات پر باباجی کا فرمانا ہے کہ ۔۔ شادی کے بھی چار حرف ہوتے ہیں اور نکاح کے بھی چار حرف۔۔ شوہر کے بھی چار حرف ہوتے ہیں تو بیگم ، بیوی اور زوجہ کے بھی چار حرف ہوتے ہیں۔ بیگم، بیوی، زوجہ کو ہندی زبان میں ’’پتنی‘‘ کہتے ہیں ،اس کے بھی چار حرف ہوتے ہیں۔۔عربی میں عورت کو ’’نساء‘‘ کہتے ہیں، جو چار حرف پر مشتمل ہے۔ انگریزی میں وائف کی اسپیلنگ اگر چیک کریں تو وہ بھی چار حرف کے ہی ہوتے ہیں۔ حتیٰ کے نکاح بھی چار حرف اور دلہن بھی چار حرفی لفظ ہے۔۔جب باباجی سے اتنی لمبی تمہید کا ’’خلاصہ ‘‘ چاہا تو کرتے کی دائیں جیب سے سستی سی سگریٹ کی ڈبی نکال کر اس میں سے ایک سگریٹ کو نکالا، فلٹر والی سائیڈ کو لبوں سے لگانے سے پہلے سلگانے والی سائیڈ کو زبان کی نوک سے ہلکا سے گیلا کیا(باباجی سے جب اس حرکت کا پوچھا تو کہتے اس طرح سگریٹ دیر تک چلتی ہے)،سگریٹ کو جلایا اور پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے۔۔ ان سب باتوں سے اسی بات کا اشارہ ملتا ہے کہ بیویاں چار ہی ہونی چاہئیں۔ ہاتھ میں بھی چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ہے۔ دل کے بھی چار خانے ہیں، ہر ایک خانہ میں ایک بیوی کی تصویر ہونی چاہئے۔۔جب ہم نے باباجی سے کہا کہ آپ نے جو کچھ بتایا ہے یہ اگر زوجہ ماجدہ کے علم میں آجائے تو باباجی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔پھر تو ہڈیوں کے ڈاکٹر کا پتہ پاس رکھئے۔ کیونکہ ڈنڈے کے حروف بھی چار ہیں اور جوتے کے بھی چار حروف ہوتے ہیں۔
سیاح میں بھی چار حرف ہوتے ہیں۔۔ لیکن اب سیاحوںنے مری پر چار حرف بھیج دیئے ہیں۔۔ سوشل میڈیا پر ملک گیر بائیکاٹ مری کا سلسلہ جاری ہے۔۔ مری میں ہونے والے سانحہ نے پورے ملک کو غم کے بوجھ تلے دبادیا تھا۔۔ سنا ہے کہ ان دنوں مری کے ہوٹل والے خالی سڑکوں پر کھڑے ہوکر ہزار روپیہ کمرہ، ہزار روپیہ کمرہ کی آوازلگارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ پرکشش آفر بھی دے رہے ہیں کہ انڈا،چائے اور پراٹھا بالکل فری۔۔کہتے ہیں کہ ایک سیاح کو مری کی روڈ پرڈھکن لگی خالی بوتل ملی۔۔سیاح حیران ہوا کہ خالی بوتل اور وہ بھی ڈھکن بند۔۔ اُس نے فوراً بوتل کا ڈھکن کھولا تو بہت سارا دھواں نکلا کہ کچھ بھی نظر نہ آیا پھر آواز آئی۔۔ہو ہو ہو ہاہاہا۔۔سیاح نے دیکھا تو سہم گیا کہ ایک جن اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔سیاح نے بوتل کے جن کو آزاد کرنے والی بہت سی کہانیاں پڑھ رکھی تھی وہ سمجھ گیا کہ۔۔اس نے ایک عدد جن کو آزاد کردیا ہے۔۔اب سیاح کو حوصلہ ہوا اور بولا۔۔ جن بابا میں نے آپ کو آزاد کیا ہے اب تم مجھے مری کی مفت سیر کراؤ۔جن نے ’’ھو ھو ھا ھا‘‘ بند کی اور سیاح کو گھورنے لگا پھرکہنے لگا۔۔ اوئے نادان سیاح! میں مری کا جن ہوں جہاں بندر کو کیلا کھلاؤ تو کوئی نہ کوئی مری والا بھاگا ہوا آتا ہے کہ یہ ہمارے علاقے کا بندر ہے تم نے اس کو کیلا کھلایا اب مجھے پیسے دو۔۔ اے ناسمجھ سیاح تو مجھ سے مفت سیر کی فرمائش کرتا ہے، تجھے کیا پتہ ان مری والوں کے ہاتھوں میں جن بھی بے بس ہیں۔۔ مجھے مری کے ہی ایک مقامی باشندے نے قید رکھا ہوا ہے، وہ مجھے روز بوتل میں بند کرکے سڑک کنارے پھینک دیتا ہے اور پہاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے۔۔پھر کوئی تیری طرح کا بھولا بھالا سیاح راستے میں پڑی بوتل دیکھ کر اسے اٹھاتا ہے اور اس کا ڈھکن کھول دیتا ہے تو میں باہر نکل آتا ہوں۔۔ تب وہ ’’پہاڑیا‘‘ بھاگتا ہوا آتا ہے اور سیاح سے کہتا ہے۔۔۔توں مہاڑا جن بوتل اچوں کڈی چھوڑیا،کڈ ہزار روپیہ۔۔
مصنف میں بھی چار حرف ہوتے ہیں۔۔ معروف مصنف اور سفرنگار مستنصر حسین تارڑ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔میں نے کچھ دیر پہلے اپنی بیگم سے پوچھا ۔۔کیوں بھئی مرد زیادہ باتونی ہوتے ہیں یا عورتیں؟وہ کچھ نہیں بولی، میں نے بلند آواز میں کہا ۔۔بہری ہو گئی ہو؟ سنتی نہیں ۔۔تو اطمینان سے کہنے لگی ۔۔پچھلے اکتیس برس میں تم نے مجھے جتنے سفرنامے،کالم، کہانیاں اور ناول سنائے ہیں۔۔تو میں نے بہری ہی ہونا تھا۔۔جیسا کہ اوپر بتاچکے ہیں کہ عورت میں بھی چار حرف ہوتے ہیں۔۔ایک دن ایک عورت ایک ڈاکٹر کے پاس گئی توڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔۔بی بی کیا مسئلہ ہے؟؟ تو وہ خاتون کہنے لگی۔۔ ڈاکٹر صاحب میرا ایمان بڑا کمزور ہے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے حیران ہوئے کہ اس خاتون کو تو کسی عالم دین کے پاس جانا چاہئے؟؟ میرے پاس کیوں آئی ہے؟ پھر خاتون نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ۔۔۔ میں دودھ بھی دیتی ہوں اور انڈے بھی۔۔ ڈاکٹر صاحب مزید حیران ہوئے کہ یہ کون سی ’’ممالیہ‘‘ ہے جو انڈے بھی دیتی ہے۔۔ابھی ڈاکٹر یہ تمام باتیں سوچنے پر اپنا قیمتی ٹائم برباد کرہی رہا تھا کہ اچانک خاتون نے اپنے ایک سال کے بچے ’’ایمان‘‘ کو آگے کیا اور پوچھنے لگی۔۔ دودھ اور انڈے دینے کے باوجود بھی میرا ایمان اتنا کمزور کیوں ہے؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگوں کو سنائی کم،دکھائی زیادہ دیتا ہے اس لئے باتیں کم اور کام بڑے کیجئے۔۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔