محاوروں میں صدیوں کی دانش پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایک انگریزی محاورہ ہے، جس کا ترجمہ اردو میں یوں کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم روپے بچانا چاہتے ہو تو پیسوں کی قدر کرو۔ ہماری زندگیوں میں سکہ رائج الوقت لمحہ ہے۔ زندگی میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ہم لمحوں کو ضائع کر دیتے ہیں اور سال کے ضائع ہونے پر خود کو کوسنے دیتے رہتے ہیں۔ لمحوں کا گوشوارہ بے ترتیب ہو جائے تو برسوں کے کھاتے درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ پیسہ ضائع ہو جائے تو واپس آجاتا ہے، ضائع شدہ وقت واپس نہیں آتا۔ وقت ضائع کرنا گویا ٹرین کا چھوٹ جانا ہے۔ اگرچہ بعد میں چلنے والی ٹرین بھی ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے لیکن دوسری ٹرین کے مناظر وہ ہرگز نہ ہوں گے جو پہلے وقت کی ٹرین میں کھڑکی کے ساتھ سیٹ پر بیٹھے مسافر کے نصیب میں ہوتے ہیں۔ لیٹ ہونے والا سفر کے مناظر سے لطف نہیں لے سکتا۔ عمر بھر کے سفر میں اس کا سانس پھولا رہتا ہے، زندگی کی گاڑی میں وہ ذرا سا قدم بھی جما لے تو اسے غنیمت جانتا ہے۔ بروقت کام کرنے والا ہی اپنے وقت میں ہر وقت دستیاب رہتا ہے۔ لمحوں کی قدر کرنے والا اپنے وقت میں وسعت پا لیتا ہے، اور یہی وہ شخص ہے جو دوسروں کی آواز پر لبیک کہہ سکتا ہے، دوسروں کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے اور ان کی جانب استمداد کا ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔
لمحے کی قدر وہ شخص کرتا ہے جو اپنے حصے میں آنے والے کام کو مقررہ وقت پر کرنے کا خود کا پابند بنا لے۔ خود پر پابندی ہی آزادی ہے۔اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے والا بالآخر لوگوں کی مرضی کا پابند ہو جاتا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ---- خود کو ضبط کی زنجیر میں جکڑ کر ہم سب زنجیروں سے خود کو رہا کرا لیں یا پھر خود کو "آزاد" زندگی کا خوگر بنا کر اپنی وجودی جبلتوں کے بندی خانے کا اسیر بنا لیں۔ ایک دوسرے محاورے کے مطابق اگر ہم اپنی تقدیر کے معمار خود ہیں، یعنی اگر ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر خود رقم کرتے ہیں تو وہ تحریر یہی ہے۔ کیا ہم بندگی قبول کر کے رہائی لینا چاہتے ہیں یا آزادی اور آزاد روی کے جھنجھنے کی جھنکار پر بے خود ہو کر خود کو جبلی اور طبعی قوانین کے زندان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ جسم کو کسی ضابطے کا پابند کر لیا جائے تو روح کشادگی میں آ جاتی ہے۔ خود کو وجودی تقاضوں کے حوالے کر دیاجائے تو روح کی آزادی گروی رکھ دی جاتی ہے۔
زندگی کا ہر مرحلہ ہم سے کچھ تقاضا کرتا ہے، اس تقاضے کو بروقت نبھانا ہی ہمیں عافیت میں لے جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر ہر لمحے کا ہم پر کچھ قرض چڑھ جاتا ہے، جوں جوں یہ قرض بڑھتا ہے ہماری گردن جھکتی چلی جاتی ہے۔ مخلوق کے سامنے جھکی
ہوئی گردن خواری سے تعبیر کی جاتی ہے۔ بچپن اور جوانی کے تقاضے اور ہیں، بڑھاپے کے تقاضے کچھ اور! جوانی میں بچپن کی ضد مناسب نہیں اور بڑھاپے میں جوانی کی دل چسپیاں غیر مہذب بھی ہیں اور غیر مناسب ہیں۔ پچپن میں بچپن کا مظاہرہ کیا جائے تو وقت وجود اور وسائل کا قرضہ کسی سود مرکب کی طرح انسان کے سر چڑھ جاتا ہے۔ زندگی بے ترتیب ہو جاتی ہے… بجائے اس کے کہ انسان اپنی زندگی کی گاڑی کا ڈرائیور خود بنے ، زندگی اسے ڈرائیو کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس اپنی اصلاح کی فرصت رہتی ہے نہ تصور!! اپنی اصلاح کا خیال نہ ہو تو اپنی رعیت کی اصلاح کا خیال کیسے وارد ہو گا۔ انسان کسی کو وہی کچھ دے سکتا ہے جو اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اس لین دین میں وسائل کے ساتھ ساتھ اصلاح ، سکون اور خیال بھی شامل ہیں۔
ہمارا دین دینِ فطرت ہے، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں دینِ فطرت میں پیدا کیا گیا ہے، ہمیں پیغامِ فطرت ڈھونڈنے کے لیے اپنے ماحول، ملک اور خاندان سے بغاوت نہیں کرنا پڑی۔ دین نے ہمیں ہمارے وقت وجود اور وسائل کی تقسیم بہت احسن طریق سے سکھا دی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں مرنے کے بعد مال کی تقسیم بھی ایک طے شدہ کلیے کے تحت ہے۔ اس میں تحریف کرنے والا ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ صدقہ و خیرات کے باب میں بھی مصارف اور اس کی شرح بتا دی گئی ہے …یعنی ہمارا مال ہمارا مال نہیں ہے، ہم نیک کاموں میں بھی اسے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ زکوٰۃ کسی غیر مسلم کو پکڑا دی جائے، یا کسی ادارے کے سپرد کر دی جائے، اسی طرح زکوٰۃ کسی ریاست میں لاگو ٹیکس کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ یہی حال وقت کا ہے۔ ہمارا وقت سارے کا سارا ہمارا نہیں، اس میں وقت دینے والے کا بھی حصہ ہے، اس میں ہمارے آس پاس رہنے والوں کا حصہ ہے، ہم کسی کا حصہ غصب کر کے سارا وقت اپنی ذات کے لیے مختص نہیں کر سکتے۔ یہ محض خود غرضی ہی نہیں بلکہ ظلم کا باب بھی ہے۔ آج ہم اپنے گھروں میں گھر والوں سے کم بات کرتے ہیں اور اپنے موبائل پر یار باشی میں زیادہ مشغول رہتے ہیں، یہ گھر والوں کے حق میں ظلم ہے، ہم اپنا اور اپنوں کے حصے کا وقت کسی غیر کو کیسے دے سکتے ہیں۔
ہماری زندگی میں طے شدہ لمحات ہیں، اور ان لمحات کی تقسیم بھی طے شدہ ہے۔ یہاں تک کہ عبادت بھی طے شدہ اوقات میں فرض ہے، زوال کے اوقات میں نماز اور سجدہ قبول نہیں۔ وقت پر نماز ادا نہ کی جائے تو پھر اس کی قضا پڑھنا ہوتی ہے اور ظاہر ہے قضا شدہ نماز کبھی بروقت نماز کی جگہ نہیں لے سکتی۔ پنجابی کا محاورہ ہے " ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں"۔ دینِ فطرت میں پنجگانہ نماز کے نظام الاوقات طے کر دیے گئے اور سچ پوچھیں تو یہ ہمارے وجود پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ فجر سے عشا تک وقت پر نماز ادا کرنے سے زندگی کے نظام الاوقات میں جو ترتیب اور سلیقہ میسر آتا ہے اس کا جواب نہیں۔ اسی طرح روزہ ہے، روزہ رکھنے اور کھولنے میں ایک ایک لمحے کا خیال رکھا جاتا ہے، سحری کے لمحات خوابِ غفلت میں کھو دیے جائیں تو روزہ رکھنے کی سعادت سے محرومی ہی مقدر ٹھہرتا ہے، مغرب سے چند لمحے پہلے خوانِ نعمت کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ حسن دراصل حسنِ ترتیب ہی کا نام ہے۔ لمحوں میں حسنِ ترتیب میسر آجائے تو انسان کی زندگی خوب سے خوب تر ہو جائے۔
خود احتسابی کے باب میں لمحوں کی ترتیب میں خلل ڈالنے والے عناصر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ خیال بے ترتیب ہو جائے تو عمل میں ترتیب قائم نہیں رہتی۔ خیال میں بے ترتیبی کے علاوہ جو چیز لمحوں کی ترتیب کو درہم برہم کرتی ہے وہ وجود کا جمود ہے۔ لذات کام و دہن کی رغبت ہمیں لمحوں کی تقدیس سے غافل کر دیتی ہے۔ ایک لمحے کا قرض کئی دنوں کی مشقت کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات لمحے کا تاوان ادا کرنے کے لیے پوری زندگی صرف ہو جاتی ہے۔ جو شخص جتنا قیمتی ہوتا ہے اس کے لمحات بھی اتنے ہی قیمتی ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں کہاں قیمتی ہے، بس وہاں اپنے لمحوں کی نگہداشت میں چوکس ہو جائے۔ ایک امام مسجد اگر وقت سے بے وقت ہو جائے تو ساری جماعت پریشان ہو جاتی ہے۔ پس جہاں جہاں ہم اپنی جماعت کی امامت کر رہے ہیں وہاں اپنے وقت کا کڑا احتساب لازم ہے، تا آنکہ ہماری اقتدا کرنے والے بے کہیں ترتیب نہ ہو جائیں۔ "کشف المحجوب" میں حضرت علی ہجویریؒ نے ایک خواب تحریر کیا ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے رسولِ کریمؐ کی زیارت ہوئی تو میں نے دریافت کیا حضور کوئی نصیحت فرمائیں۔ سبحان اللہ! طالب صادق ہمیشہ نصیحت کے طالب رہتے ہیں۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا "احبس حواسک" ( اپنے حواس قابو میں رکھ )۔ رسولِ کریمؐ جو بھی فرمائیں وہ حدیث ہوتی ہے، آپؐ خواب میں بھی کسی امتی کو ہدایت فرما سکتے ہیں، راوی ثقہ ہو تو اسے بھی حدیث میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنے حواس کو قابو میں نہ رکھا جائے تو وہ لذات میں منہمک ہو جاتے ہیں، اور عالمِ کثرت میں حواسِ خمسہ کا یہی انہماک زندگی میں چنیدہ لمحوں کی ترتیب اور تقدیس سے انسان کو غافل کر دیتا ہے۔