جماعت اسلامی گزشتہ 20دنوں سے کراچی میں سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی نے یہ دھرنا کیوں دیا ہوا ہے اور اس حوالے سے جماعت اسلامی کے کیا مطالبات ہیں؟ دھرنے کی وجوہات اور مطالبات نیچے تحریر کیے گئے آٹھ نکات میں واضح ہو جاتے ہیں جن کو پڑھ کر عام آدمی بھی خود فیصلہ کرسکتا ہے۔ آئیے! جماعت اسلامی کراچی کے مطالبات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ (1پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اوسطاً 20ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ کراچی دھرنے کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 600 ہونی چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 233 یونین کونسلز بنائی ہیں۔ جب کراچی میں زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس لیے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ (2جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے اور جس طرح لندن، پیرس، استنبول اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے۔ (3واٹر بورڈ کے ادارے کا قیام 1983ء میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں ہوا تھا۔ یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا اور پچھلے 14سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ سوملین گیلن پانی روزانہ کی فراہمی کا آخری منصوبہ اگست 2003ء میں نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کو ملا۔ کے فور پر آج تک کام شروع نہیں ہوسکا اور کراچی میں پانی کا بدترین بحران ہے۔ کراچی دھرنے کا مطالبہ ہے کہ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے تحت ہونا چاہیے۔ (4دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کے پاس ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت نے 14سال
میں صرف 10بسیں چلائی تھیں جبکہ آج کراچی کو 5ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ جب 2001ء سے 2005ء تک کراچی میں ایک بااختیار سٹی ناظم تھا تو صرف 4سال میں 364بڑی اور کشادہ ایئر کندیشنڈ بسیں 15 سے زائد روٹس پر چلتی تھیں۔ 2005ء سے 2010ء تک دوسری شہری حکومت نے مزید 70بسیں چلائیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 14سال میں صرف 10بسیں چلائی ہیں۔ (5کراچی میں 3ہزار سے زیادہ سرکاری سکولز ہیں۔ یہ تمام سرکاری سکولز پہلے سٹی ناظم کے پاس تھے۔ پیپلز پارٹی نے یہ تمام سکولز چھین لیے۔ میئر کراچی وسیم اختر کے پاس صرف کے ایم سی کے سکولز رہ گئے تھے جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے مگر اب نئے بلدیاتی قانون کے مطابق میئر کے ماتحت کوئی سکول نہیں ہوگا۔ کے ایم سی کے سیکڑوں سکولز پر بھی صوبائی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ اگر یہ ہزاروں سکولز دیانت داری اور اچھے ویژن کے مطابق چلائے جائیں تو شہریو ں کی مہنگے پرائیویٹ سکولز سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ (6نئے بلدیاتی قانون 2021ء کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیرکنٹرول ہسپتالوں جیسے عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، سوبھراج ہسپتال، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز سمیت درجن بھر ہسپتال اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ سندھ حکومت کے پاس اربوں کا بجٹ ہے مگر ان ہسپتالوں میں جاتے ہوئے بھی مریضوں کو خوف آتا ہے۔ کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کردیا ہے۔ (7ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد رہائشی منصوبے شروع کیے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت میں پلاٹس مل گئے۔ سرجانی ٹائون میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے۔ سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بناکر قبضہ کرلیا ہے اور یہ ادارہ رشوت کا گڑھ ہے۔ کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیرمحفوظ ہے۔ شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو غیرقانونی تھا۔ (8کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ میں اندھیرنگری چوپٹ راج ہے۔ سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ سوسائیٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں۔ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ حکومت۔ ان سوسائیٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے۔ آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مطابق 2013ء میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے ٹرانسپورٹ، پانی، بلڈنگ کنٹرول، کے ڈی اے، ماس ٹرانزٹ، سالڈ ویسٹ اور ماسٹر پلان کے ادارے چھینے تھے اور 2021ء میں صحت اور تعلیم سمیت باقی اداروں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی کے تمام اداروں پر قبضہ کرکے مستقبل کے میئر کراچی کو شوبوائے بنادیا ہے۔ میئر کوئی میگا پراجیکٹ بھی لانچ نہیں کرسکے گا۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح اندرون سندھ تمام ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، شہروں اور دیہاتوں کو تباہ و برباد کردیا ہے، اب وہ کراچی کو بھی لاڑکانہ اور تھر بنارہی ہے۔ ان اداروں پر قبضہ کرنے کا مقصد جیالوں کی بھرتیاں ہیں۔ سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کا دھرنا اسی لیے ہے کہ کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اور صحت، ٹرانسپورٹ و تعلیم کا نظام واپس کیا جائے تاکہ شہر کے لوگ شہر کی ترقی و بہتری کے فیصلے خود کریں۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ کراچی کے روشن مستقبل کے لیے ہرفرد کو دھرنے میں آنا چاہیے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا پارٹی سے ہو۔ جماعت اسلامی کے مطابق کراچی دھرنے کے مطالبات درحقیقت ہرکراچی والے کے مطالبات ہیں۔