اسلام آباد : جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ڈیڑھ سالہ حکومت کا نزلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر گرنا چاہیے تھا ہم پر گرگیا۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں کوئی اتحاد نہیں، دونوں اپنی پوزیشن پر قائم ہیں، حکومت میں نہیں جائیں گے۔ پارٹی کہہ رہی ہے کہ گورنر کے پی کا عہدہ چلنے دیں۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ ہمارے پشتون کلچر سے واقف ہیں مہمان گھر آجاتے ہیں تومہمان کے لے دروازہ تو بند نہیں کرتے۔ان کو عزت بھی دیتے ہیں انہیں خوش آمدید بھی کہتے ہیں۔پی ٹی آئی کا وفد پہلی بار تو نہیں آیاپہلے بھی کئی دفعہ آچکے ہیں۔ہم نے ہمیشہ ان کے آئے ہوئے وفد کو عزت دی ہے احترام کیا ہے۔ہمارا عجیب سا کلچر بن گیا ہے اگر دو آپس میں ملاقات کرتے ہیں توملاقات کو فوراًایک اتحاد کے نام سے تعبیر کرلیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کو جہاں پاکستان بھر کے الیکشن کے نتائج پر اعتراض ہے ۔ خیبرپختونخوا میں توپی ٹی آئی کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں۔ہم نے ان کے سامنے بھی رکھا کہ ہماری پوزیشن تو یہ ہے ۔ ان کے سامنے اچھے انداز کے ساتھ رکھا، تلخی کے ساتھ نہیں رکھا۔پی ٹی آئی اور جمعیت کا جوآپس میں 12سال اختلاف رہا ہے وہ تلخیوں سے بھرا ہے۔ ہمارا درمیان ایک دیوار حائل نہیں پہاڑ حائل ہیں اس کو عبور کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر قائم ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ ہم نے اپنی جنرل کونسل سے پارلیمانی سیاست چھوڑنے کی سفارش کی ہے اور پارلیمانی سیاست چھوڑنے پر غور شروع کردیا ہے، ہم کیوں انتخابات میں کیوں اتر رہے ہیں، پیسہ اور توانائیاں بھی صرف ہوتی ہیں، ہم کسی لیے یہ سب عمل کرتے ہیں جب ہمارے فیصلے عوام نہیں کوئی اور کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایوان میں نہیں تو پھر میدان ہی فیصلہ کریں گے، ہم نے اسلحہ نہیں اٹھانا ہے بلکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی تحریک کو آگے بڑھانا ہے اور اس ملک کو تحریکوں کی بنیاد پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو مستعفی ہوجانا چاہیے، وہ ذمے داری قبول کریں، ان کے پاس ایک بھی نتیجے کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں تھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال تھے جبکہ ہم نے الیکشن کمیشن کے شفاف الیکشن کے بیان کو مسترد کردیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں سیاسی آدمی نہ مذاکرات سے انکار کرتا ہے نہ مسئلے کے حل سے انکار کرتا ہے۔اس کا دارومدار آنے والے حالات پر ہے۔غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے۔دھاندلی جس منصوبہ بندی کے ساتھ ہوئی ہے کہ کس پارٹی کو ہم نے کہاں جتوانا ہے اور کہاں کہاں ہروانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لئے جس طرح رشوتیں لی گئی ہیں دوستوں کی طرف سے شکایات آرہی ہیں۔اگر ایک الیکشن کی کوکھ سے اس قسم کی شکایات اٹھتی ہیں تو اس الیکشن کو ہم کیسے تسلیم کرلیں۔2018ء کا الیکشن متنازعہ ہوگیا تھا اب یہ الیکشن بھی متنازعہ ہوگیا ۔ سندھ میں جی ڈی اے نے بڑے مظاہرے کردیئے ہیں۔محمود خان اچکزئی،اختر جان مینگل ، ایمل خان نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہوا ہے۔اگر آپ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں تو پھر آپ کا9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا۔اس کامعنی یہ ہے قوم نے ملک کے باغیوں کو ووٹ دیا ہے۔ہمارے لئے تضادات نہیں ہیں خود ان کے لئے تضادات ہیں۔