ہماری سیاست تو خیر گزشتہ 7 عشروں سے زخمی ہے لیکن اب بیچارے سیاستدان بھی زخمی ہونے لگے ہیں۔ 16 اپریل 2022ء کو پنجاب اسمبلی میں وزیرِاعلیٰ کے انتخاب کے موقعے پر چودھری پرویز الٰہی کو ”شدید“ زخمی کر دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا ”مجھ پر حملہ کروا کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ میرا بازو ٹوٹ گیا ہے اور سینے پر بھی چوٹیں آئی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ رانا مشہود مجھ پر تشدد کر رہے تھے اور حمزہ دور سے بیٹھے ہدایات دے رہے تھے،میں کہاں جاؤں، میرے لیے کوئی عدالت نہیں۔ اَزخود نوٹس اُن کے لیے لیا جاتا ہے جن کی کوئی سفارش ہو۔ میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے“۔ٹی وی سکرینوں پرچودھری صاحب اپنا ٹوٹا ہوا بازو گلے میں لٹکائے مظلومیت کی تصویر بنے جلوہ افروز تھے۔ ہمیں چودھری صاحب کی سچائی پر تو کوئی شک نہیں کہ یہ ”مضروب“ کا اپنا پہلا بیان تھا۔ پایوڈین لگی بازو کی پٹّی دیکھ کر ہمیں اپنی کم علمی پر بہت غصہ آیا کہ ہمیں اتنا بھی علم نہیں تھا کہ اشرافیہ کا ٹوٹا بازو پایوڈین سے بھی جُڑ سکتا ہے اور مضروب بد دعا کے لیے ٹوٹا ہوا بازو بھی آسانی سے اُٹھا سکتا ہے۔ یہ بھی حیرت ناک کہ چودھری صاحب کے بازو کی ہڈی محض تین چار دنوں میں جُڑ بھی گئی اور پَٹی اُتر بھی گئی جبکہ اُن کے عظیم لیڈر کی ٹوٹی ٹانگ لگ بھگ 4 ماہ میں بھی نہیں جُڑ سکی۔
چودھری صاحب نے فرمایا کہ اُن کے لیے کوئی عدالت ہے نہ سفارش۔ حقیقت مگر یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ہاتھ اُن کی پُشت پر اور اسٹیبلشمنٹ کے ہر چیف آف آرمی سٹاف کو وہ 10 بار وردی میں منتخب کروانے کے لیے تیار۔ تازہ ترین مثال اعلیٰ ترین عدلیہ کے ایک معززترین جسٹس کی اُن کے ساتھ ”دوستانہ گفتگو“ کی آڈیو جس میں جسٹس صاحب اُنہیں تسلی دیتے ہوئے۔ دراصل یہ مبینہ طور پر 3 آڈیو لیکس کا ایک سلسلہ ہے جس میں چودھری صاحب پہلی 2 آڈیو میں اپنے وکلاء کے ساتھ اور تیسری میں جسٹس صاحب سے گفتگو کر رہے ہیں۔ جس کیس پر وکلاء سے گفتگو ہو رہی تھی، اُسی پر معزز جج چودھری صاحب کی تسلی کروا رہے تھے۔ اُس کیس میں جو فیصلہ آیا وہ بھی چودھری صاحب کی منشاء ومرضی کے عین مطابق آیا۔ مبینہ آڈیوز لیک ہونے کے بعد وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ نے ایف آئی اے کو تحقیقات کی اجازت دے دی اور ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے آڈیوز کا فارنزک کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی درخواست کی ہے کہ وہ اِن آڈیوز کا فارنزک کروا کر حقائق سامنے لائیں۔ سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے بھی آڈیو لیکس کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔اُنہوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ”یہ معاملہ ضرور سپریم جوڈیشنل کونسل میں بھیجنا چاہیے۔ اگر جسٹس مظاہر علی
نقوی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں بھیجنا ”تے فیر اے وی میرے اُتّے پا دیو“۔
دوسرا مظلوم شخص شہباز گِل ہے جو ”ایویں خوامخواہ“ سیاست میں ٹانگ اڑا بیٹھا۔ عمران خاں نے اُسے اپنا ”چیف آف سٹاف“ مقرر کیا۔ یہ عہدہ خاں صاحب کی ذہنی اختراع ہے لیکن شہباز گِل تو اپنے آپ کو ”چیف آف آرمی سٹاف“ ہی سمجھ بیٹھا۔ اُس نے طنز وتعریض اور غیرپارلیمانی الفاظ کی بھرمار سے اپوزیشن کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ اِسی شہ میں اُس نے ٹی وی پر بیپر دیتے ہوئے پاک فوج کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو بہرحال کسی بھی محبِ وطن پاکستانی کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اُسے پاک فوج میں تفریق پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیاگیا اور اگلے ہی دن عمران خاں نے شور مچا دیا کہ شہباز گِل پر جنسی تشدد ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اشرافیہ کا کوئی بھی شخص جب پابندِ سلاسل ہوتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ شہباز گِل نے بھی بیماری کا بہانہ تراشا اور ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ کورٹ میں پیشی کے موقعے پر وہیل چیئر پر بیٹھے شہباز گِل کی اداکاری دیدنی تھی۔ اُس وقت تو ہمیں اُس پر بے پناہ ترس بھی آیالیکن جب اگلے ہی دن شہباز گِل کی ہسپتال میں ریکارڈ کی جانے والی ویڈیو آن ایئر ہوئی تو سارا پول کھُل گیا۔ اِس ویڈیو میں ایک پولیس والا اُسے کہتا ہے کہ اُس کی ضمانت ہو گئی ہے اِس لیے اب مچلکے جمع کرانے کے لیے عدالت جانا ہے۔ یہ سُنتے ہی شہباز گِل چھلانگ لگا کر بیڈ سے نیچے اُتر آیا اور یوں اُس کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ آجکل وہ ضمانت پر ہے لیکن اُسے گِلہ ہے کہ پیشی کے موقع پر تحریکِ انصاف کا کوئی رَہنماء عدالت نہیں آتا۔ اُس سے کوئی پوچھے کہ بندہئ خُدا عمران خاں نے تو اُس کی گرفتاری کے دو، تین دن کے بعد ہی شبلی فراز کو اپنا چیف آف سٹاف مقرر کر دیا تھا اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر باہر آیا تو اُس کا بنی گالہ اور زمان پارک میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا، ایسے میں بھلا کسی تحریکی رَہنماء کو کیا پڑی تھی کہ وہ اُس کی حوصلہ افزائی کے لیے عدالت پہنچتا۔
جب اعظم سواتی گرفتار ہواتو عمران خاں نے تحقیقاتی ادارے کی طرف سے اُس پر بھی جنسی تشدد کا الزام لگایا۔ اعظم سواتی توگرفتاری کے بعد سرِعام سسکیاں لے کر روتا ہوا پایا گیا لیکن فواد چودھری بڑا کائیاں نکلا۔ جب فواد چودھری کو عدالت میں ریمانڈ کے لیے لایا گیا تو وہ ہتھکڑیوں میں بندھے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر مسکراتا ہوا پایا گیا۔ شاید اُس کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ کہیں عمران خاں اُس پر بھی پولیس کی طرف سے جنسی تشدد کا الزام نہ دھر دے اِس لیے اپنی عزت بچانے کے لیے یہی بہتر ہے کہ ہنستے مسکراتے رہو۔ شیخ رشید کی بھی ضمانت ہو گئی اور وہ اپنے سسرال سے گھر واپس آگیا ہے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا ”ہتھکڑی میرا زیور اور جیل میری سُسرال ہے“۔ لیکن پہلے ہی دن جب اُسے دھکا لگا تو وہ سامنے والے شخص کے کندھے پر سَر رکھ کر رونے لگا حالانکہ اُس وقت تک تو وہ سُسرال بھی نہیں پہنچا تھا۔ پولیس کسٹڈی اور جیل میں اُس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا، اِس کے بارے میں راوی خاموش ہے۔
اب آتے ہیں ”عظیم رَہنماء“ اور ”قائدِاعظم ثانی“ کی طرف جو ریاستِ مدینہ اور نیا پاکستان بناتے بناتے یوٹرنوں کی سینچری مار چکے۔ حکومت سے نکلنے کے بعد اُن کا احتجاجی سفر امریکی سائفر سے شروع ہوااور جنرل قمر جاویدباجوہ سے ہوتا ہوا موجودہ نگران وزیرِاعلیٰ محسن نقوی پر (فی الحال) ختم ہوا۔ دروغ بَر گردنِ راوی آجکل وہ اِس سوچ میں گُم ہیں کہ اُنہوں نے اگلا الزام کس پر دھرنا ہے۔ اگر خاں صاحب کے ماضی میں جھانکا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اُن کا اگلا ٹارگٹ اعلیٰ عدلیہ ہوگی کیونکہ ستمبر 23ء میں محترم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی مسند سنبھالنے والے ہیں اور عمران خاں نے آنے والی عدلیہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے راہ بھی تو ہموار کرنی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے موجودہ اسٹیبلشمنٹ میں جگہ بنانے کے لیے وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف آگ اُگلتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے تو افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر صدر عارف علوی کو جنرل باجوہ کے خلاف تحقیقات کے لیے خط بھی لکھ دیا ہے۔ ویسے بھی خاں صاحب کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی شخص ریٹائر ہو کر اُن کے کاغذوں میں ناکارہ ہو جاتا ہے تو وہ اُس کی خوب کلاس لیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کی مثال سب کے سامنے۔ عمران خاں عدلیہ بحالی تحریک میں حصّہ لینے کا بڑے فخر سے اعلان کرتے رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اُنہی کی ضد پر عدلیہ کے ریٹرننگ آفیسرمقرر کیے گئے لیکن جب عمران خاں ہار گئے تو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے ریٹائرڈ چیف صاحب کو مخاطب کرکے کہا ”کتنے میں بِکے“۔ اب اُنہوں نے 22 فروری سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ اُن کے پاس جیل سے بچنے کا بہانہ اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ ہے جبکہ وہ کارکنوں کو جیل بھرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں۔ اُدھر رانا ثناء اللہ فیصل آبادی بھی ایک کائیاں آدمی ہے۔ اُس نے بھی کہہ دیا کہ گرفتاری کے لیے آنے والوں میں سے چُن چُن کرتحریکِ انصاف کے صرف چھوٹے بڑے لیڈروں کو ہی گرفتار کیا جائے گا، کارکنوں کو نہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ 22 فروری کو منصّہئ شہود پہ کیا آتا ہے۔ ویسے عام خیال تو یہی ہے کہ خاں صاحب اِس معاملے پر بھی یوٹرن لے لیں گے۔