اب تو زندگی کچھ زیادہ ہی غمگین ہو گئی ہے اسے ایک پل بھی چین نہیں لگ یہ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی وہ غم کی آندھیوں سے نجات نہیں پا سکے گی کیونکہ اس پر مسائل کا بوجھ اس قدر پڑ جائے گا کہ جسے وہ اپنے اوپر سے ہٹانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود کا میاب نہیں ہو سکے گی ہاں اگر اہل اختیار و اقتدار چاہیں تو وہ خوشیوں کے چراغوں کو روشن ہوتا دیکھ سکتی ہے۔
ہمارے وزیر خزانہ ہیں تو بڑے زیرک اور معاملہ فہم مگر نجانے وہ چوبیس کروڑ عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے چھٹکارا نہیں دلا سکے اور مسلسل اس کی شرائط مان کر عام آدمی کی سانسیں بے ترتیب کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اب دیکھیے نا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی خاطر انہیں سخت سے سخت فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں جبکہ انہیں علم ہے کہ یہ فیصلے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیں گے اور غریب عوام کی سسکیاں بلند ہوتی صاف سنی جا سکیں گی مگر پھر بھی وہ پٹرول سے لے کر اشیائے صرف تک کی قیمتیں بڑھانے سے اجتناب نہیں کرپائے اسے آپ ان کی مجبوری سمجھ لیں یا کوئی حکمت عملی مگر دونوں صورتوں میں حالت عوام کی بگڑ گئی ہے
وہ دہائی دے رہے ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ کیسا طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے۔ وہ تو اپنے حکمرانوں کو اس لئے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں کہ وہ ان کے دن پھیرنے میں دن رات جد وجہد کریں گے اور ایسے فیصلے کریں گے جو ان کے چہروں پر چھائی زردی کو لالیوں میں تبدیل کر دیں گے مگر انہیں پچھتر برس گزرنے کے بعد بھی ایسی کوئی کوشش ایسی کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دی جو کوئی بھی آیا اس نے عوام کی چیخیں ہی نکلوائی انہیں پریشان ہی کیا۔ اس وقت یہ جو منی بجٹ آیا ہے اس نے تو وہ ضربیں لگائی ہیں کہ جنہیں لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
معذرت کے ساتھ آئی ایم ایف ہو یا حکمران انہیں غریب عوام ہی کیوں نظر آتے ہیں کہ جنہیں
قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو کیوں زحمت نہیں دی جاتی جو دولت کے ڈھیروں پر بیٹھے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے ملک کے اندر بھی اور باہر بھی اتنا کچھ ہے جس کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا مگر مجال ہے کہ انہیں کوئی پوچھتا ہو ان سے یہ کہتا ہو کہ بھلے مانسو یہ جو تمہارے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اس سے تمہاری تجوریاں بھرتی چلی جاتی ہیں انہیں بھی انسان قرار دے کر چند بنیادی سہولتیں دے دو انہیں بھی یہ احساس دلاؤ کہ وہ ان کے خیر خواہ ہیں مگر نہیں ایسا کبھی نہیں سوچا گیا کبھی بھی انہیں انسان نہیں سمجھا گیا انہیں تو کیڑے مکوڑے تصور کیا گیا لہٰذا آج وہ ہر بنیادی سہولت اور اچھی غذا سے محروم ہیں مگر قومی خزانہ بھرنے کے لیے ان پر بے تحاشا ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا جو خزانے کو چاٹ رہے ہیں۔ بڑی بڑی فیکٹریاں ملیں اور کارخانے جن کی ملکیت ہیں ہزاروں ایکٹر زمین کے مالک ہیں۔ ایک کمزور اور بے بس عوام رہ گئے ہیں جن پر آسانی سے چڑھ دوڑا جاتا ہے۔ یہ انصاف ہے کیا؟
روشنی ہو نہ سکی دل بھی جلایا میں نے
غریب لوگ محنت مشقت کرنے کے باوجود اپنے جسموں کو مطلوبہ توانائی نہیں پہنچا پائے ان کی رگوں میں خون رک رک کر دوڑتا ہے ان کے بچے لاغر پیدا ہوتے ہیں اور لاغر ہی اس فانی دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ موسمی پھلوں کو وہ ترس جاتے ہیں۔ مغربی طرز کے غذاؤں کے مراکز میں ان کا داخلہ کبھی ہوا ہی نہیں بس وہ باہر سے ان کا نظارہ کر سکتے ہیں اور ایک سرد آہ بھر سکتے ہیں کہ یہ سب اہل اقتدار، اہل اختیار اور اہل زر کے لئے ہیں جو ان کا خون چوس کر گالوں پے لالی لاتے ہیں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں نگر نگر کی سیر کرتے ہیں کبھی یورپ، کبھی امریکا اور کبھی کہاں۔ حیرت ہمیں یہ ہے کہ اس سب کے باوجود غریب عوام شاہراہ احتجاج کا نہیں سوچتے وہ خاموشی سے ہر ستم سہے جا رہے ہیں۔
مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال عارضی ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ مظلومیت کا یہ سلسلہ تا دیر رہ سکے یہی عوام ہوں گے جب وہ اس دھرتی کو تپتا صحرا بنانے والوں کے خلاف ایک ایسے طوفان کی طرح اٹھیں گے کہ پھر تو دل دہل جائیں گے مضبوط سے مضبوط شجر بھی دہرے ہو جائیں گے لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اذیت ناک دردناک اور خوفناک منظر ضرور بدلے گا مگر حکمران طبقہ اس خیال کو اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہا اسے اپنی طاقت اپنی ذہانت اور اپنی تدبیر پر گھمنڈ ہے جبکہ اجتماعی ذہانت و تدبر کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ بہر حال اس مہنگائی کی لہر جو منی بجٹ کی بنا پر ابھری ہے عوام کی غالب اکثریت کو زندہ درگور کر دیا ہے اور وہ پوچھتے ہیں ان حکمرانوں سے کہ کیا وہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھجوا کر اسی لیے آئے تھے کہ غریبوں کو دردناک صورت حال سے دو چار کر دیں۔ بات وہی ہے کہ اگر انہیں یہ اندازہ تھا کہ وہ گرتی معیشت کو سنبھالا نہیں دے سکیں گے تو پھر اقتدار میں آئے کیوں؟ اب جب وہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ یہ سب عمران خان کی حکومت کی وجہ سے ہواہے تو کوئی ان کی بات ماننے کو تیار نہیں کیونکہ وہ اختیارات کے پوری طرح مالک ہیں تو پھر کیوں معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے کیوں مافیاز غریب عوام کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں؟
کیا لکھیں اور کیا نہ لکھیں کہ اب چڑیاں کھیت جگ چکی ہیں جس کے ازالے کے لئے عوام پر ستم بم گرائے جا رہے ہیں کسی کو ذرا سی جھجھک نہیں کوئی معمولی سی بھی پشیمانی نہیں یہ ہوتی ہے حکومت یہ ہوتی ہے حکمرانی کہ عوام کو دشمن تصور کرلیا جائے پھر انہیں ناکوں چنے چبوائے جائیں غریب عوام کا آخر قصور کیا ہے کہ وہ تو ہمیشہ آس کے دیے جلاتے رہے ہیں انہیں ہر حکمران سے ایک نئی صبح کو طلوع کرنے کی خواہش رہی ہے مگر انہیں مایوس کیا گیا اب تو اخیر کی بھی اخیر ہو چکی ہے لہٰذا وہ مایوس ہو گئے ہیں مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں لوگو! جاگو اٹھو تمہیں جینا ہے تو اپنا حق مانگنا ہوگا۔خاموشی کا پردہ چاک کرو باآواز بلند اپنے مطالبات اہل اقتدار کے سامنے رکھو اس کے بغیر کوئی چارا نہیں کیونکہ انہیں تم سے کوئی ہمدردی نہیں کہ حکمرانوں کے سینے میں دل نہیں۔
تمہاری ذات سے پھیلی ہے تیرگی ہر سو
تم اٹھ کے بزم سے جاؤ کہ روشنی پھیلے
تمہاری ذات سے پھیلی ہے تیرگی ہر سو
09:55 AM, 19 Feb, 2023