پاکستان میں سیاست کی جو مخدوش صورت حال ہے اس کا موازنہ اگر 1971 کے مشرقی پاکستان سے کیا جائے تو لگتا ہے کہ 51 برس بعد اس ملک کی نیا ایک بار پھر ڈول رہی ہے۔ آج کی سیاست تب کی صورت حال سے زیادہ خراب نظر آ رہی ہے۔ جس طرح اس وقت روزانہ کی بنیاد پر حالات نئی کروٹ لیتے تھے آج گھنٹوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کی سیاست اور ملک کے دولخت ہونے پر ویسے تو بے شمار کتابیں آئی ہیں اور اب مزید نئے انکشافات کے ساتھ آ رہی ہیں مگر دو تاریخ ساز شخصیت نے اس بارے میں عرق ریزی کی ہے وہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ جناب الطاف حسن قریشی صاحب اور ڈاکٹر صفدر محمود نے جو تحقیقات کی ہیں وہ سراہے جانے کے قابل ہیں۔ ڈاکٹر صفدر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر اللہ تعالی نے الطاف قریشی صاحب کی شکل میں جو تحفہ ہم پاکستانیوں کو عطا کیا ہے اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ جب بھی لاہور جاتا ہوں قریشی صاحب کا نیاز حاصل ہوتا ہے اور قربت بھی نصیب ہوتی ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ ویسے تو ان کی کئی کتابیں میرے پاس ہیں مگر ابھی پچھلے ہفتے ہی ان کی نئی کتاب“مشرقی پاکستان—ٹوٹا ہوا تارہ“ ملی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مصنف نے اپنے دستخط کر کے کمال مہربانی سے یہ کتاب بھیجی۔ اس موقعہ پر اپنے دوست نوشاد امام کا بھی مشکور ہوں جن کی وجہ سے یہ نایاب کتاب لاہور سے چل کر ایک ہفتے میں مجھ تک شکاگو پہنچ گئی۔ یہ ایک مکمل تاریخ ہے جسے نوجوان ایقان حسن قریشی نے ترتیب دی ہے- بقول بھائی کامران الطاف قریشی کے ایقان نے نے پناہ محنت کی ہے جس کے لئیے ہم سب انہیں خراج تحسین پیش کرتے اور الطاف صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کتاب ایک تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے قریشی صاحب نے اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں جتنے مضامین لکھے ان سب کو یکجا کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے یہ ایک دستاویز ہے۔ میں خود مشرقی پاکستان میں رہا ہوں اور جب چھوٹا تھا تو میرے والد جہاں اور اردو اخبارات گھر لاتے تھے وہیں اردو ڈائجسٹ اور زندگی بھی ہمارے والدین کے زیر مطالعہ رہتے۔ میں وہاں چونکہ اسکول اور کالج میں زیر تعلیم رہا اس لئیے وہاں کی سیاست کو غور سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ایسے میں قریشی صاحب کی سیاسی تحریروں کو پڑھنے کا جو لطف آیا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ایک طرف تو روزانہ کی سیاست سامنے ہوتی تھی دوسری جانب سیاست کو پڑھتا بھی تھا ابتدائی دنوں سے ہی۔ آج بھی الطاف صاحب کا شائد ہی کوئی کالم ایسا ہو جو میری نظروں سے اوجھل ہوتا ہو۔ وہ مشرقی پاکستان پابندی سے جاتے اور وہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر تحقیق کرتے اور مسلسل لکھتے تھے۔ عام لوگ تو وہاں کی سیاست کو شیخ مجیب یا مولانا بھاشانی کے کینویس سے دیکھتے تھے مگر قریشی صاحب نے ان لوگوں کی سرگرمیوں کو بھی قریب سے دیکھا جو شروع سے آخر تک پاکستان کے استحکام پر یقین رکھتے تھے ان میں بنگالی بھی تھے اور وہ غیر بنگالی بھی جنہیں آج ہم بہاری کہہ کر راندہ درگاہ کر دیتے ہیں۔ میں جب
بھی الطاف قریشی صاحب سے ملنے لاہور جاتا ہوں وہ نہ صرف ان محصورین کا تذکرہ کرتے ہیں بلکہ اپنے احباب کو جمع کر کے بتاتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی ہم سے زیادہ محب وطن پاکستانی ہیں۔ مصنف نے اپنی ان تحریروں میں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد، مسلم لیگ کے فضل القادر چودھری، خان عبدالصبود خان، خواجہ خیرالدین، جماعت اسلامی کے پروفیسر غلام اعظم جیسے مجاہدین پاکستان کا بھی ہمیشہ ذکر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
الطاف حسن قریشی صاحب نے اپنی تحریروں میں اس وقت کی پاکستان کی سیاست کا جو نقشہ کھینچا ہے اسے دیکھ کر آج کی سیاست سمجھ میں آتی ہے۔ دونوں وقتوں کی سیاست سے سب سے زیادہ نقصان جس کا ہوا ہے وہ عوام ہیں۔ یعنی 1971 میں جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی چپقلش کی وجہ سے نہ صرف ملک دو لخت ہوا بلکہ لاکھوں غیر بنگالی بیدردی سے مارے گئے اور دیکھا جائے تو اس وقت کا مشرقی پاکستان ان حرماں نصیب پاکستانیوں کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ مگر آج پاکستان میں ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں۔ اس لحاظ سے قریشی صاحب اور صفدر محمود صاحب جیسی شخصیات کا انسانیت پر احسان ہے کہ انہوں نے تاریخ مرتب کی۔ خیر میں آج کے حالات کا موازنہ کر رہا تھا۔ تب عوام بھالوں، چھریوں اور گولیوں سے مارے گئے تھے اور آج کی گندی سیاست کی وجہ سے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ سیاستدان چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے بیانات، اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ پورے ملک کے لوگوں کی اخلاقیات متاثر ہورہی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تنقید کرنے کی کوششوں میں حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ آئین شکنی اس طرح سے ہورہی ہے جیسے آئین اور قانون ان کے گھروں کی باندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے بڑے شہروں میں بازاروں یا سڑکوں پر کوئی قانون نظر نہیں آتا۔ ٹریفک کا نظام ہو یا بازاروں میں اشیا کا نرخ کسی پر بھی انتظامیہ کا کوئی کنٹرول ہی نہیں۔ جب سیاستداں ایک دوسرے کو گرانے اور پچھاڑنے میں اخلاقی اور قانونی حدود کو کھلم کھلا پار کر رہے ہیں تو عام لوگوں کو ناجائز حرکات کرنے سے کون روکے گا؟۔ پاکستان کے حکمرانوں اور دیگر سیاست دانوں کو بازاری سیاست سے کب فرصت ملتی ہے کہ وہ ایسی نایاب کتابوں کا مطالعہ کریں۔ کاش یہ لوگ ایسی کتابیں پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ اقتدار کے حصول میں تمام حدود پار کر جانے کے باوجود آپ کا انجام کیا ہوتا ہے؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ملوث جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب اور اندرا گاندھی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایسی سیاست سے انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا؟ سوائے اس کے کہ آج کا مؤرخ انہیں ان تباہیوں اور قتل عام کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔۔ آج کے سیاستداں بھی سدا زندہ نہیں رہیں گے۔ ایسے کام کر جائیں کہ تاریخ انہیں اچھے ناموں سے یاد کرے۔ مشرقی پاکستان میں لوگ قتل کئے گئے تھے اور آج کے پاکستان میں لوگ بے روزگاری، مہنگائی اور معیشت کی تباہی سے قتل ہو رہے ہیں۔ ساری خرابیوں کی جڑ گندی سیاست ہے- پاکستان میں کس کو فکر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد کتنی مہنگائی ہوگی؟ کس کو فکر ہے کہ کتنے فاقے ہوں گے اور کتنے سفید پوش خود کشیاں کریں گے؟ انہیں فکر ہے تو بس یہ کہ انتخابات میں تاخیر کرو آئین کی بھی پامالی کیوں نہ ہو۔ انہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنی انا کو الگ رکھ کر بیٹھ ہی جائیں کہ بات چیت سے مسائل کا حل نکلے۔ آج کے سیاستدان مشرقی پاکستان کے واقعات سے سبق حاصل کریں ورنہ خاکم بدہن ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔