پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ابھی اس پٹرول کو مزید مہنگا کیے جانے کا عندیا دیا جارہا ہے ہمارے پرجوش اور عوام دوست وزیراعظم کہتے ہیں کہ یہ قیمت بہت کم ہیں ہمارے اردگرد کے ممالک میں تو یہ کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ یہ جو آئی ایم ایف ہے اس کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے اسے انسانوں سے معمولی سی بھی محبت نہیں اسے صرف اپنے منافع سے غرض ہے لہٰذا وہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایات دیتا ہے کہ فلاں چیز پر ٹیکس لگا دو اور فلاں کی قیمت بڑھا دو اس حوالے سے سوچنا تو حکومت کو ہے کہ ہمارے مفاد میں کیا ہے اور کیا نہیں مگر وہ سوچ بچار نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کو اپنی فکر ہے اپنے اقتدار سے سروکار ہے پھر کوئی احتجاج نہیں ہوتا کوئی آواز بلند نہیں ہوتی عوام خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ان میں کوئی بیداری کی لہر نہیں ابھرتی انہیں بس یہی کہتے رہنا ہے کہ مر گئے لٹ گئے گھی مہنگا ہو گیا آٹے کی قیمت بڑھا دی گئی دال چاول مہنگے ہوگئے کرایوں میں اضافہ ہوگیا اور پھل سبزیاں ان کی پہنچ سے دور ہوگئے مگر مجال ہے وہ باضابطہ احتجاج کے راستے پر آئیں اگر کوئی کہتا ہے کہ آؤ پرامن مظاہرہ کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں مرضی تو حکومت نے اپنی ہی کرنی ہے لہٰذاوہ آرام وسکون سے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ اس صورت میں حکومت کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ ’’انھے وا‘‘ ٹیکس لگائے اسے دیکھ کر مافیاز نے بھی طے کر لیا ہے کہ وہ اشیاء ضروریہ وغیر ضروریہ کے دام کسی سے پوچھ کر نہیں بڑھائیں گے لہٰذاوہ کسی اصول کے پابند نہیں جو جی میں آتا ہے کر رہے ہیں۔انہیں کسی کا کوئی خوف نہیں اگر تھوڑا بہت ہے بھی تو اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں سپلائی لائن کو منقطع کرنے پر تل جاتے ہیں اور ہماری حکومت محض تماشائی بنی رہتی ہے ان پر ہاتھ ڈالنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی لہٰذاوہ عوام کی جیبیں خالی کرا رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی اپنے کسی کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ ایسے لوگوں کو من مرضی سے روکنا حکومت کا کام ہے لہٰذاوہ انہیں قانون کے مطابق روکے ان کے گرد شکنجہ کسے مگر وہ ایسا نہیں کر رہی۔ اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنا ہے اسے اگرعوام سے لگاؤ ہو ان کی مشکلات سے دلچسپی ہو تو وہ ضرور حرکت میں آئے مگر اسے تو حالات پر نظر رکھنا ہے اس کے ساتھ حزب اختلاف کے ساتھ انتقامی کاروائی بھی کرنا ہے لہٰذاوہ اسی سمت چل رہی ہے اب تو اس کو اور بھی اس جانب نگاہ رکھنا پڑ رہا ہے کہ حزب اختلاف کی سبھی جماعتیں اس ایک نکتے پر متفق ہوگئی ہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں نہیں رہنے دینا اگرچہ ان کا موقف یہی ہے کہ انہوں نے عام آدمی کی زندگی بے کیف و مضمحل کر دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں بھی اقتدار عزیز ہے وگرنہ وہ بڑے بڑے جلوس نکالنے کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار نہ کریں انہیں تو سو دو سو کارکنان کو ساتھ لے کر چوکوں اور چوراہوں میں آ جانا چاہیے تھا۔ لوگ ایک دم گھروں سے باہر نہیں نکلتے یعنی خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ بدلتا ہے ۔لہٰذاوہ احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے آگے آئیں وگرنہ حکومت نے پٹرول اور مہنگا کر دینا ہے جس سے مہنگائی اپنی انتہا کو چھو رہی ہو گی روپے کی قدر کم ترین سطح پر چلی جائے گی لہٰذاحکومت کو تبدیل ضرور کیجئے مگر احتجاجی تحریک بھی چلائیے عوام خود بخود اس میں شامل ہوتے جائیں گے۔ بہرحال حکومت اپنے تئیں مطمئن بھی ہے کہ حزب اختلاف اسے فی الحال نہیں ہٹا سکتی کیونکہ اس کے پاس مطلوبہ تعداد موجود نہیں نون لیگ کے اہم عہدے دار رانا تنویر ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اس کا واضح اعتراف کر چکے ہیں۔پی پی پی کے کے قمر الزمان کائرہ نے بھی یہی بات کہی ہے لہٰذاحکومت کو کوئی پریشانی نہیں مگر جب سبز جھنڈی دکھا دی گئی تو پھردیکھتے ہی دیکھتے سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا۔ یہاں یہ سوال ہم پھر دہراتے ہیں کہ کیا آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے یو ٹرن لیں گے کہ جنہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے دوست جاوید خیالوی نے کہا ہے کہ اب ہمیں ان مالیاتی اداروں کے قرضے ادا کرنے سے انکار کر دینا چاہیے بہت ہو چکا کہ عوام کے ساتھ ہونے والے ستموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک لوگوں کا بہت برا حال کر دیں گے لہٰذالازمی ہے کہ انہیں بتا دیا جائے کہ اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ غریبوں کی ہڈیوں کا گودہ نکال کر ان کے حوالے کر دیں اس پر ڈائریکٹرز مالیاتی ادارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت قرضوں کا استعمال تعلیم‘ صحت اور دیگر مفاد عامہ کے منصوبوں پر دیانت داری سے خرچ نہیں کرتی آپ ے شاہانہ اخراجات کم یا ختم نہیں کرتی یہ کہ بدعنوانی پر قابو نہیں پاتی تو اس میں ان کا کیا قصور ہے اس کے جواب میں حکومت کے پاس شاید کہنے کو کچھ نہیں ہوگا مگر یہ بھی ہے کہ ہمیں عارضی اور سطحی منصوبوں پر صرف کرنے کا حکم کیوں دیا جاتا ہے بنیادی منصوبوں جس میں صنعتیں آتی ہیں ان کے استعمال کے لییکیوں اجازت نہیں دی جاتی خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی عرض کریں گے اس وقت ہمیں یہ جو تازہ صورتحال ہے اسے دیکھنا ہے کہ ایک طرف زندگی کو غذا کی کمی اور غیر معیاری میسر ہونے سے خطرات لاحق ہیں تو دوسری جانب قرضوں کا ایک پہاڑ ہے جس کا حجم بڑھتا پی چلا جارہا ہے اور حکمران یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں مگر بات وہی ہے کہ وہ کیوں قومی خزانے سے مستفید ہونے والے اہل اختیار کو نہیں روکتے قرضے لے کر معاف کروانے والوں سے کیوں نہیں عوام کا پیسہ واپس لیتے کیوں ایسے منصوبوں پرعوام کا سرمایہ لگاتے ہیں جن کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے اور ان بنیادی نوعیت کے منصوبوں کوکیوں نظر انداز کرتے ہیں جن سے قومی خزانہ بھر سکتا ہے اور عوام کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
دراصل ہمارے حکمران اقتدار میں آتے ہیں تو مشروط کہ انہیں جہاں عالمی مالیاتی اداروں کی آشیرباد لینا ضروری ہوتی ہے تو وہاں بڑی طاقتوں کی مسکراہٹیں بھی درکار ہوتی ہیں لہٰذایہاں اب تک اسی لیے وہ تعمیر و ترقی کا عمل جاری نہیں ہو سکا جو ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتا تھا لہٰذااب صورتحال یہ ہے کہ آئے روز سکون غارت ہو رہا ہے رات کی نیند اب گہری نہیں رہی اور ہڑ بڑا کر اٹھ جانا پڑتا ہے۔ کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ معاملات اس قدر بگڑ چکے کہ کسی انقلاب کی ضرورت ہے اور انقلاب کی مخالف قوتیں ایسا ہرگز نہیں ہونے دینا چاہتیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے حالات کے بھنور سے باہر نکلا جائے۔
حرف آخر یہ کہ اب ہمیں اپنے اخراجات میں کمی لانا ہوگی اب سائیکلیں ؛خرید لی جائیں ‘ دور کہیں جانے کے لئے ریل گاڑی یا لاری پے سوار ہوں مگر یہ بھی ہماری پہنچ میں نہ رہے تو پھر نعرہ مستانہ بلند کرنا پڑے گا۔