عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی سماعت، پاکستان کے جوابی دلائل

03:01 PM, 19 Feb, 2019

دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت جاری ہے جہاں پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور علی خان دلائل دے رہے ہیں۔

گزشتہ روز بھارتی وکیل نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو سے متعلق دلائل دیے اور آج پاکستان کی جانب سے دلائل دیے جا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ پڑوسیوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جس کے لیے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کرائی گئی اور جاسوس بھیجے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت کی مداخلت اور دہشت گردی کے باعث ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لئے کام کر رہا تھا جسے بلوچستان، خصوصاً گوادر اور کراچی میں دہشت گردی کرانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کلبھوشن یادیو نے مجسٹریٹ کے سامنے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے متعلق بغیر کسی دباؤ کے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور پاکستان نے یقینی بنایا کہ یادیو مرضی سے جو بیان دینا چاہے دے۔

اٹارنی جنرل منصور علی خان نے کہا کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو وہ تمام حقوق دیے جو جنیوا کنونشن کے تحت اس کا حق ہے۔ پاکستان نے انسانی بنیادوں پر یادیو کی والدہ اور اہلیہ کو ملاقات کی اجازت دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے مقامی ذرائع استعمال کیے اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے بندرگاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ کمانڈر یادیو کی سرگرمیاں انفرادی نہیں بلکہ بھارتی ایما پر ہوئیں۔

اٹارنی جنرل منصور علی خان نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی منصوبہ بندی ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ پاکستان دشمن ملیشا کی فنڈنگ اور تربیت کر رہا ہے جبکہ پاکستان کو اب تک دہشت گردی سے 123 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

پاکستان کی جانب سے وکیل خاور قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل بھارت نے کئی اہم سوالات کے جوابات نہیں دیے۔ ہمپٹی ڈمٹی کی طرح بھارت بھی جھوٹ کی کمزور دیوار پر بیٹھا ہے۔

خاور قریشی نے کہا کہ بھارت اور کلبھوشن کا اس سماعت سے کوئی تعلق نہ ہونے کا بھارتی مؤقف مضحکہ خیز ہے۔ ایک طرف بھارت نے عالمی عدالت سے رجوع کیا اور دوسری طرف پاکستان کے سوال کا جواب دینے سے بھارت تحریری انکار کر چکا ہے۔

پاکستان کے وکیل نے کہا کہ بھارت نے کمانڈر یادیو کی شہریت کا ہی اعتراف نہیں کیا تو قونصلر رسائی کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے۔ اگر بھارت کہتا ہے کہ یادیو کو ایران سے اغوا کیا گیا تو بھارت نے اب تک ایران سے رابطہ کیوں نہیں کیا۔

خاور قریشی نے کہا کہ بھارت بتائے قونصلر رسائی معاہدے کا کلبھوشن پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ کلبھوشن یادیو کی شہریت سے متعلق ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بھارت نے نہیں بتایا کہ وہ حسین مبارک پٹیل ہے یا کلبھوشن یادیو جب ایک شخص کی شناخت مصدقہ ہی نہیں تو قونصلر رسائی کیسی؟۔

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے وکیل نے کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے پاس مسلمان نام سے پاسپورٹ کیوں موجود تھا۔ کلبھوشن کو ایران سے پاکستان اغوا کر کے لانے کے الزام کا کیا ثبوت ہے۔ ایران سے پاکستان کے 9 گھنٹے کے سفر کا بھارت کے پاس کیا ثبوت ہے۔

خاور قریشی کی جانب سے عدالت میں الیکٹرانک پریزینٹشن دی گئی اور کہا کہ حسین مبارک پٹیل کے نام پاسپورٹ 2003 میں جاری ہوا جس کی تجدید 2014 میں کی گئی۔ حسین مبارک کے پاسپورٹ پر درج پتے کی جائیداد کلبھوشن کی ماں کی ملکیت ہے۔

خاور قریشی نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے اُسے ایران سے نہیں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔ اس کے ایران سے اغوا کی کہانی بے بنیاد ہے

خاور قریشی نے دلائل کے دوران بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اجیت دوول نے بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کا اعتراف کیا اور کہا کہ پاکستان بلوچستان سے ہاتھ دھو دے گا۔ اجیت دوول کے بقول کلبھوشن نے بلوچستان میں دہشتگردی میں اہم کردار ادا کیا اور کلبھوشن پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کا ایک آلہ کار تھا۔

خاور قریشی نے کہا کہ کلبھوشن کیس کے دوران بھارت نے ہمیشہ بداعتمادی کا مظاہرہ کیا۔پاکستانی وکیل نے بھارتی صحافی کیرن تھاپر اور پروین سوامی کی دی گئی رپورٹس کے حوالے دیئے اور کہا کہ پروین تھاپر نے کلبھوشن کے ساتھ کام کرنے والے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے انٹرویوز کے حوالے دیے۔

پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے کہا کہ میں ماضی میں بھارت کی نمائندگی بھی کر چکا ہوں اور بھارت کا یہ رویہ میرے لیے بالکل نیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی طبیعت خراب ہو گئی جس کے بعد پاکستان کی ایڈہاک جج تبدیل کرنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بھارت کو 20 فروری کو اپنا مؤقف دوبارہ پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا اور پھر پاکستان 21 فروری کو اپنے حتمی دلائل پیش کرے گا۔

یاد رہے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے جاسوس کلبھوشن جادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔

کلبھوشن پر پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کے سنگین الزامات ہیں اور بھارتی جاسوس تمام الزامات کا مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف بھی کر چکا ہے۔

10 اپریل 2017 کو کلبھوشن یادیو کو جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

مزیدخبریں