رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سردی اور زکام کی دواؤں میں اینسیڈ قسم کے مرکبات سے تعلق رکھنے والی ایک دوا ’’آئبوپروفن‘‘ بھی ہوتی ہے جو اعصاب اور پٹھوں کی تکلیف میں وقتی افاقہ ضرور کرتی ہے لیکن زیادہ دنوں تک استعمال کی صورت میں اس سے دل کے دورے کا خطرہ بھی 3.4 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ خطرہ اسصورت میں دیکھا گیا جب سردی اور زکام کی دوائیں گولیوں کی شکل میں لی گئیں جبکہ ان پر مشتمل محلول کو ڈرپ کے ذریعے براہِ راست خون میں داخل کرنے پر یہ خطرہ اور بھی بڑھ کر 7.2 گنا زیادہ ہو گیا جو بہت سنگین بات ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جنہوں نے ان بیماریوں کے علاج میں ایسی دوائیں لی تھیں جن میں اینسیڈ قسم کے مرکبات شامل نہیں تھے، ان میں صحت مند افراد کی نسبت دل کے دورے کا خطرہ 2.7 گنا زیادہ ہوا تھا۔
اس تحقیق کے مطابق اگر جسم میں سردی ، نزلے اور زکام کی وجہ بننے والے وائرس یا جراثیم سرگرم ہوں تو اینسیڈ والی دوائیں لینے سے دل کے دورے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ پٹھوں اور اعصاب میں معمول کی تکلیف میں ان دواؤں کے زیادہ استعمال سے یہ خطرہ 1.5 گنا بڑھتا ہے۔ویسے تو بیشتر طبی ماہرین نے اس مطالعے کے نتائج کو اہم اور توجہ طلب قرار دیا ہے لیکن سائنسدانوں کا ایک طبقہ اس بارے میں تشویش کا شکار بھی ہے۔
اس طبقے کا کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں مزید چھان بین کی ضرورت ہے کیونکہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر وہ نظام کون سا ہے جو سردی اور زکام کی کیفیت میں اینسیڈ کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔