اسلام آباد: امارات اسلامی افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ افغانستان عالمی تنہائی کا شکار نہیں ، بہت سے ممالک سے سفارتی تعلقات ہیں ، فضائی رابطے بحال ہیں ۔
اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ، عالمی برادری سے تجارتی اور سفارتی تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں خواتین کو کوئی مسئلہ نہیں ۔
دوسری جانب ، او آئی سی کے اہم ترین اجلاس میں پاکستان نے افغانستان میں بحران کے حل کیلئے چھ نکاتی تجاویز پیش کر دیں ہیں ۔
اسلام آباد میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے سترویں اہم اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے چھ نکات پر مشتمل تجاویز پیش کی گئیں، جن کے مطابق او آئی سی ممالک کو فوری طور پر افغان عوام کی مدد کرنا ہوگی ، افغانستان میں سرمایہ کاری کو فروغ کیلئے ایسا گروپ تشکیل دینا ہو گا جو افغانستان کو درپیش مالی چیلنجز اور بینکاری نظام کی عدم موجودگی کا حل تلاش کرے ، افغان عوام کی خوراک کی فراہمی اور فوڈ سکیورٹی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے ، منشیات کے خاتمے کیلئے افغان اداروں کی استعداد کار بڑھائی جائے ۔
نکات کے مطابق افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین و لڑکیوں کے حقوق کے لیے افغان حکام کو انگیج کیا جائے جبکہ افغانستان میں دہشتگردی کی روک تھام کیلئے افغان حکام سے مل کر کام کیا جائے اور افغانستان میں تعلیم، صحت اور تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی، اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کا گروپ بنا کر افغانستان کو جائز بینکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دینی ہو گی ۔
اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کو ہی نہیں دنیا کو متاثر کرے گا ۔ افغانستان کے بحران سے نمٹنے کیلئے طویل ، مختصر مدتی اقدامات کرنا ہونگے، امید ہے او آئی سے افغانستان کے بحران سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرے گی ۔
عمران خان نے کہا کہ افغان آبادی غربت کی سطح سے نیچے آتی جا رہی ہے ، افغان عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے ، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے 70 فیصد بجٹ کا انحصار غیر ملکی امداد پر ہے ۔ اگست میں حالات بدلے تو افغانستان کے اثاثے منجمد کر دئیے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال سنگین ہے ، عالمی برادری خاموش ہے اگر بروقت اقدام نہ کیا تو افغانستان میں افراتفری پھیلے گی ، جس سے دہشتگردی ایک بار پھر جنم لے سکتی ہے ۔