اب تمہاری باری ہے

Amira Ehsan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

امریکا کی چھ ریاستیں بدترین طوفانی بگولوں کی زد میں ہیں۔ کینٹکی وہ ریاست ہے جہاں اس ’ٹارنیڈو‘ طوفان، (عاصفہ) نے شدید ترین تباہی پھیلائی ہے۔ گورنر بیشیر کے مطابق: ’200 میل تک کے علاقے پر حملہ آور یہ گردباد گہرے زخم چھوڑ گیا۔ وسیع ترین علاقے پر محیط ایسی تباہی جو کبھی دیکھی نہ تھی، جس کا تصور محال تھا۔ ایک ہی رات میں گھر اور تجارتی مراکز کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بن گئے۔‘ طوفان کی قوت ایسی تھی کہ 27 ڈبوں پر مشتمل ٹرین پٹڑی سے اٹھا پھینکی۔ ایک کار 75 گز اوپر پہاڑی پر اڑا ماری۔ ایک گاڑی گھر کی چھت پر جا پڑی۔ میڈیا پر خوفناک کچرے، گھروں گاڑیوں کے ملبے کی سینکڑوں تصاویر نشانِ عبرت ہیں۔ پے درپے 30 طوفان ان ریاستوں میں تباہی بکھیرتے ہو گزرے۔ مے فیلڈ کے میئر نے کہا کہ ہمارا علاقہ ماچس کی تیلیاں بن کر رہ گیا۔ 10 ہزار افراد پر مشتمل ایک بستی مکمل گراؤنڈ زیرو ہوگئی۔ زمین سے جا لگی۔ تاریخی گھر بلڈنگیں تباہ ہوگئیں۔ گھروں کی چھتیں اڑ گئیں۔ ایمزون ویئر ہاؤس کی دو 40 فٹ اونچی کنکریٹ کی دیواریں براہ راست طوفان کی زد میں آکر ڈھے گئیں۔ گورنر بیشیر نے کہا کہ یہ امریکی تاریخ کا طویل ترین طوفان ہے رقبے کی وسعت کے اعتبار سے۔ انہوںنے لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ ’مرنے والوں کی تعداد آنے والے دنوں میں بڑھ سکتی ہے۔ (تاحال 100 سے زیادہ ہے۔) نیشنل گارڈ ہر دروازے پر، گھر گھر جا رہی ہے۔ مگر دروازے/ گھر بچے ہی کب ہیں۔ یوں کہیے کہ وہ ہر ملبے کے ڈھیر پر جا رہے ہیں، بچ جانے والوں کی تلاش میں۔ بہت سے زخمی ہسپتالوں میں ہیں۔ ہمیں لاشیں مل رہی ہیں ملبوں سے۔ پہلی امداد تو تدفین کی مد میں دی جائے گی۔ میں دعا کر رہا ہوں کہ جانی نقصان زیادہ نہ ہو۔‘ گورنر نے مزید کہا: ’کاش مجھے معلوم ہوتا، میں سمجھ سکتا کہ (یہ کیا ہو رہا ہے…) ہم پہلے اتنی بڑی وبا (کورونا) میں مبتلا ہوئے۔ (8 لاکھ امریکی مرے۔) پھر تاریخی برفانی طوفان اور سیلاب نے آن لیا۔ اب اس تاریخی بدترین بگولوں کا طوفان ہمارے سامنے ہے۔ ایسا کیوں ہے۔؟ (سبھی بلائیں اب تاریخی ہیں کیونکہ تم نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔) ایسا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ یہ حقیقتاً! حقیقتاً! خدا ہی کا کام ہے۔ ‘ یاد رہے کہ صرف گورنر نہیں، امریکا بھر میں لوگ دم بخود یہ کچرے ملبے کے ڈھیر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ زدہ علاقوں سے بدتر ہے۔ خوف اور ہیبت، …(Shock and Awe  امریکی جنگی مشن کا نام) دلوں پر طاری ہے۔ چشم زدن میں دنیا اجڑ گئی۔ ابھی تو طوفان سے بچنے کی پناہ گاہیں، شیلٹر بنے ہوئے تھے جس کی بنا پر اموات اتنی نہ ہوئیں۔ طوفان کی رفتار ناقابل یقین حد تک تیز تھی۔ جنگی طیارے کی مثل۔
چلیے گورنر نے یہ سوال تو اٹھایا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ ہیروشیما ناگاساکی سے لے کر افغانستان عراق، شام، یمن اور گزشتہ ڈیڑھ صدی میں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ براہ راست یا بالواسطہ امریکی کارگزاریوں کے تحت ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ گورنر نے ٹھیک کہا کہ یہ واقعی خدا کی کارفرمائی ہے۔ طوفان کی زد میں آنے والے ایک امریکی نے کہا کہ ’یہ زمین پر جہنم ہے‘۔تم نے پوری دنیا پر اسلحے کی ہمہ نوع برسات سے خطوں کو جہنم زار بنایا۔ 2017ء میں افغانستان پر سب سے بڑا بم (MOAB ) برسایا۔ 21,600  پاؤنڈ کا بم۔ 16  
ملین ڈالر (بم کی لاگت) تم نے اس تخریب کاری اور انسانی آبادی کو بھسم کر ڈالنے پر خرچ کیا۔ دنیا میں جابجا بھوک، افلاس اور قحط سے مرتے، بہتر زندگی کی تلاش میں سمندروں میں ڈوبتے انسانوں کی فلاح اور صلاح پر خرچ کرنے کی بجائے بارود پر سرمایہ کاری کی۔ آگ کی جہنم اس بم سے پھوٹی۔ 18 ہزار پاؤنڈ آتش گیر مہلک TNT  کا دھماکا، ایسا ہی بادل اٹھاتا ہے جیسا اس گردباد میں اٹھتا دیکھا جاسکتا ہے جس نے تم پر موت اور تباہی مسلط کی۔ مکافاتِ عمل کے سوا کیا ہے۔ قنوتِ نازلہ کی فریاد تم پر برسی ہے۔ جو بویا تھا سو کاٹ رہے ہو۔ اب تمہاری باری ہے۔ اب بھی سنبھل جاؤ۔ مینی سوٹا میں برفانی طوفان نے 20 انچ سے زائد برف ڈھیر کردی۔ حیران مت ہو۔ افغانوں کے اثاثے ناحق منجمد کیے بیٹھے ہو، ان پر بھوک افلاس مسلط کرنے کو۔ ضمیر جب زندگی کی حرارت کھو کر نقطۂ انجماد کو جا چھوئے تو… اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں! خارج میں بھی برفانی بگولے جان کے لاگو ہوجاتے ہیں۔ ہوش کے ناخن لو۔ سراپا صبر وتحمل افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے  AP  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت تمام ممالک سے اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ دنیا سے رحم اور ہمدردی کی توقع رکھتی ہے، ان لاکھوں افغانوں کے لیے جو شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوںنے امریکا ودیگر ممالک سے 10 ارب ڈالر (جو افغان اثاثے ہیں) کی فراہمی کا تقاضا کیا۔ انہوںنے کہا کہ افغانستان کو غیرمستحکم کرنا یا حکومت کو کمزور کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ وزیر خارجہ نے افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے پچھلی حکومت کے کارندوں اور مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان اور عدم انتقام کی پالیسی یاد دلائی۔ باوجودیکہ امریکا کی قیادت میں بننے والی افغان حکومت نے طالبان کے خلاف وسیع پیمانے پر انتقامی حملے کیے، سینکڑوں کو مارا، لاپتا کیا تھا۔ ہزاروں نے پہاڑوں میں پناہ لی تھی۔ وزارتِ خزانہ افغانستان کے ترجمان نے بھی اس حقیقت کا اعادہ کیا کہ افغان قوم کا پیسہ منجمد کیا جانا غیراخلاقی، غیرانسانی عمل اور تمام بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ہمارا پیسہ ہے ہمیں واپس دیا جائے۔
 اس امانت پر سانپ بن کر بیٹھے امریکا پر اگر آسمانی کوڑے برسیں تو عجب کیا! تم نے جنگیں مسلط کیں۔ طوفان میں اسی خوف سے تم گزرے وہی جیٹ طیاروں کی سی گھن گرج، سائرن کی آوازیں پناہ گاہوں (مورچوں) میں جا چھپنے کا جنگی سماں۔ چھتوں دیواروں کا گرنا، رہائش گاہوں کا چشمِ زدن میں ملبے کے ڈھیروں میںبدل جانا، یہ تمہاری منہ مانگی جنگ ہے جو جواباً اب تم نے دیکھی۔ پوری دنیا جنگوں کی آگ میں براہ راست یا بالواسطہ جھونکی۔ شمالی ایتھوپیا انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کو قحط کا سامنا ہے۔ امیر خان متقی نے یہ بھی کہا تھا کہ: ’امریکا ایک بڑی طاقت اور بڑی قوم ہے۔ آپ میں اتنا صبر اور اتنی وسیع الظرفی ہونی چاہیے کہ آپ بین الاقوامی اصول وضوابط کے مطابق افغانستان کے لیے پالیسی بنائیں۔ ہمارے اور اپنے درمیان فاصلہ کم اور تعلقات بہتر بنائیں۔‘ یورپین ممالک نے بھی افغان فنڈ دبوچ رکھے ہیں۔ وہ بھی انصاف سے کام لیں، ہوش کے ناخن لیں۔ طالبان حکومت کے حد درجے ذمہ دارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے بہانہ بازیوں اور بے بنیاد الزام تراشیوں سے ان کی حق تلفی کسی طور روا نہیں۔
 امریکا نے ملکوں ملکوں جبری گمشدگی، اور بے گناہ اسیریوں کا جو طوفان کھڑا کیا۔ انسانی زندگیاں جن بگولوں، جھکڑوں کی زد میں آئیں۔ خاندان رلے، بچے، عورتیں، لاپتا باپوں اور شوہروں کے اس ہولناک المیے میں جس طرح زندہ درگور کیے وہ کیا کم عذاب ہے جس کا خمیازہ کچھ نہ کچھ اس دنیا میں بھی ظالموں کو بھگتنا پڑے گا۔ اصل سزا آگے ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر انٹرنمنٹ سینٹروں اور زندانوں میں گھلتی جوانیاں، خوفناک ہوجاتی ہیں اگر مکافاتِ عمل کی صورت سامنے آئیں۔ مظلوم کی آہ، امریکی قوت وشوکت کو ریزہ ریزہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے، ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے پچھلے دنوں اور اب دوبارہ یہ تنبیہہ آئی کہ ’لاپتا افراد کی ذمہ داری وزیراعظم اور کابینہ پر ہے۔ ریاست کو ماں جیسا ہونا چاہیے۔ (بدنصیبی سے ہماری یہ ماں سوتیلی ہے۔) فیملیز رل رہی ہیں، کیوں نہ ذمہ داروں سے معاوضے لینے کا قانون بنایا جائے۔‘ (مشرف بدترین بیماری میں مبتلا معاوضہ چکا رہا ہے!) اس پر انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتے ہیں۔‘ جرم کا سدباب (صرف بیانات نہیں) آپ کی اولین ترجیح ہوتی تو آپ کی رسائی ان مقامات تک ہمیشہ رہی جہاں اس کا مداوا ممکن تھا۔ مگر زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ ہوا۔ لاپتا باپوں کے ننھے بچے سسک سسک کر جوان ہوگئے۔ ان کی جیتے جی بیوگی کی سی زندگی گزارتی ماؤں کے سروں میں چاندی اتر آئی۔ بوڑھے والدین دید کی پیاس لیے قبروں میں اتر گئے۔ عدم انصاف کی اذیت ناک داستانیں گھر گھر! ان کے صبر کا ازخود نوٹس اگر اللہ نے لے لیا؟ پناہ بخدا…
 دکھوں نے لوگوں کی سانسوں کو روک رکھا ہے!