جہاں 23 مارچ اور 14 اگست اپنے جلو میں خوشیوں کا پیغام لے کر آتے ہیں، وہیں 16 دسمبر رنج ومہن کے فسانے سنانے چلا آتا ہے۔ ہم 16 دسمبر کی کربناک یادوں کو ذہن سے کھُرچنے کی جتنی جی چاہے شعوری کوشش کر لیں، ہمارا لاشعور اُنہیںہر دم تازہ رکھتا ہے۔ یہ وہی دن ہے جب نگاہوں کے سامنے سقوطِ ڈھاکہ کی وہ خنک دوپہر گھومنے لگتی ہے جس میںہماری عظمتیں تار تار ہوئیںاور غیرتیں زوال پذیر۔ یہ وہی دن ہے جب اپنے ہی لہو کا سُرخ پیرہن پہنے اے پی ایس پشاورکے بچے ہماری غیرتوں کا ماتم کرنے چلے آتے ہیں۔ 16 دسمبر2021ء کو وزیرِ اعظم نے ٹویٹ کیا ’’تشدد اور اُسے بطور ہتھیار برتنے والوں کے لیے بالکل کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ ہمارے خیال میں تو یہ گنجائش اُسی وقت پیدا ہو گئی تھی جب حکومت نے اُس ٹی ایل پی کے سامنے ہتھیار ڈالے جس نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔
10 نومبر 2021ء کو سانحہ اے پی ایس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد صاحب نے وزیرِاعظم سے سوال کیا ’’آپ اقتدار میں ہیں، آپ نے کیا کارروائی کی؟‘‘۔ وزیرِاعظم نے کہا ’’حکومت لواحقین کو صرف معاوضہ ہی دے سکتی تھی جو خیبرپختونخوا حکومت نے دیا‘‘۔ وزیرِاعظم کے اِس جواب پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’آپ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں‘‘۔ بنچ کے رُکن جسٹس قاضی امین نے کہا ’’میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، جنہوں نے اُن بچوں کو شہید کیا۔ کیا ہم اُن سے مذاکرات کرکے شکست کی ایک اور دستاویز پر دستخط کرنے جا رہے ہیں؟۔ آپ نے ٹی ایل پی کے ساتھ بھی معاہدہ کیا، جنہوں نے احتجاج کے دوران 9 پولیس اہلکاروں کو شہید کیا، تو کیا پولیس اہلکاروں کی جانیں ہم سے کم قیمتی ہیں؟‘‘۔معزز عدالت کیا جانے کہ اقتدار کو بچانے کے لیے کون کون سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کہاں کہاں سرنڈر کرنا پڑتا ہے۔ اب سانحہ اے پی ایس پشاور کا معاملہ سپریم کورٹ میں اور ہمیں یقین کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ معصوموں کے خون کا حساب لیتے وقت کسی بڑی سے بڑی قوت کو بھی خاطر میں نہیں لائے گی کیونکہ عدل کا تقاضہ یہی۔
اِسی 16 دسمبر کو ہمارا ایک بازو الگ ہوا مگر نسلِ نَو حقائق سے بے خبر۔ وہ بے خبر کہ صرف 24 سال بعد ہی مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش میں کیوں ڈھلا۔ نونہالانِ وطن کی اُن قوتوں اور کرداروں سے آگاہی ضروری جن کی منفی سوچوں کی بدولت عین اُس وقت جب بنگلہ دیش اپنی آزادی کی 50 ویں سالگرہ منا رہا ہے، ہم اپنی کم نصیبی کا ماتم کر رہے ہیں۔ یوں تو حمود الرحمٰن کمشن نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار
جنرل یحییٰ خاں، جنرل پیرزادہ، جنرل غلام محمد، جنرل عبدالحمید اور جنرل مٹھا کو ٹھہرا کر اُن کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد تو 1958ء میں ایوبی مارشل لاء کے بعد ہی رکھ دی گئی تھی۔ ایوب خاں نے طے کر لیا تھا کہ مشرقی پاکستان ایک بوجھ ہے جسے اُتار پھینکنے میں ہی عافیت ہے۔ جب اُنہوں نے 1956ء کا آئین معطل کرکے 1962ء کا صدارتی آئین نافذ کرنے کا ارادہ کیا تو اُس وقت کے بنگالی وزیرِقانون جسٹس (ر) ابراہیم نے اُنہیں منع کرتے ہوئے کہا کہ اگر صدارتی آئین نافذ کر دیا گیا تو مشرقی پاکستان الگ ہو جائے گا کیونکہ بنگالی کسی بھی صورت میںصدارتی آئین قبول نہیں کریں گے۔ ایوب خاں نے وزیرِقانون کی بات ماننے کی بجائے اُسے عہدے سے ہٹا کر جسٹس (ر) منیر کو وزیرِقانون بناتے ہوئے حکم بھی دیا کہ کسی نہ کسی طریقے سے بنگالیوں سے جان چھڑائیں۔ جسٹس منیر نے اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء‘‘ میں لکھا کہ ایوب خاں نے اُسے بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ یا تو پاکستان سے علیحدہ ہو جائیں یا پھر کنفڈریشن بنا لیں۔ رمیض الدین نے جواب دیا ’’ہم اکثریت میں ہیں، آپ نے علیحدہ ہونا ہے تو ہو جائیں، اصل پاکستان ہم ہیں‘‘۔ یہی بات شیخ مجیب الرحمٰن نے اُردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ اُس نے کہا کہ مشرقی پاکستان 56 فیصد ہے جبکہ مغربی پاکستان 44 فیصد۔ اگر مغربی پاکستان علیحدہ ہونا چاہتا ہے تو ہو جائے۔ 1962ء کے صدارتی نظام کے تحت جب ایوب خاں نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو مشرقی ومغربی پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے قائدِ اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی اُمیدوار نامزد کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ 2 جنوری 1965ء کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے پہلے صدارتی انتخابات ہوئے۔ ایوب خاں یہ صدارتی انتخاب مشرقی پاکستان میں ہار گئے لیکن مغربی پاکستان میں جیت کر صدر بن گئے۔ اِس صدارتی انتخاب میں کی جانے والی دھاندلی پر کراچی اور مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا اور شیخ مجیب الرحمٰن کے بیانات میں تلخی آتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت سے ہی شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارت سے رابطے شروع کر دیئے تھے لیکن اِس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیاکیونکہ جب 1968ء میں اگرتلہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا تو عدالت نے اُنہیں باعزت بَری کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے علیحدگی اور بھٹو سمیت اپوزیشن کے شدید احتجاج کو دیکھتے ہوئے 25 مارچ 1969ء کو ایوب خاں نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا اور یحییٰ خاں نے باقاعدہ مارشل لاء نافذ کرکے اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 7 دسمبر 1970ء کو یہ انتخابات ہوئے۔ اِن انتخابات میں کل 300 انتخابی حلقے تھے جن میں سے 162 مشرقی اور 138 مغربی پاکستان میں تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں لے اُڑی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیںملیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات فیئر اینڈ فری تھے جبکہ یہ غلط ہے کیونکہ ثبوت موجود ہیں کہ یحییٰ خاں نے میجر جنرل غلام عمر کے ذریعے کچھ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکے لیکن یحییٰ خاں کا یہ منصوبہ ناکام ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن قومی اسمبلی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوا تو یحییٰ خاں نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا اعلان کیالیکن بھٹو نے اِس اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی کا جو رُکنِ قومی اسمبلی ڈھاکہ جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ ’’اُدھر تُم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ بھی اُنہی دنوں میں سنائی دیا۔ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس کبھی نہ ہو سکا البتہ 25 مارچ 1971ء کی رات شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ 26 مارچ کی رات بنگال رجمنٹ کے میجر ضیاء الرحمٰن نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل جنجوعہ کو قتل کرکے ریڈیو سے آزادی کا اعلان کروا دیا۔ یہ وہی ضیاء الرحمٰن تھا جس نے جنرل بن کر بنگلہ دیش میں مارشل لاء لگایا اور سربراہ بن گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی صرف دو بیٹیاں، حسینہ اور ریحانہ زندہ بچیں جو اُس وقت جرمنی میں تھیں (حسینہ واجد آجکل بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم ہے)۔
مختصر یہ کہ مارچ 1971ء میں جنرل نیازی ، جس کے پاس اُس وقت مشرقی پاکستان کی کمان تھی، نے کہا ’’میں اِس حرامی قوم کی نسل بدل دوںگا ‘‘۔ لیکن نسل تو کیا بدلتی وہ 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستان کا نقشہ ہی بدل آیا ۔ سقوطِ ڈھاکہ پر یحییٰ خاں نے کہا کہ اُس نے تو سیزفائر کا کہا تھا لیکن وہ بزدل سرنڈر ہی کر آیا۔ جنرل نیازی کے ظلم وستم کی گواہی جنرل راؤ فرمان علی سے لے کر جنرل مِٹھا تک سبھی نے دی۔ حمود الرحمٰن کمشن نے بھی اُس کے طرزِ عمل کو شرمناک اور اخلاقی دیوالیہ پَن کا شکار قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ کم از کم 2 ہفتے تک ڈھاکہ کا دفاع کر سکتا تھا۔ آج ملک میں ایک دفعہ پھر اُسی افراتفری کا عالم ہے جو ہم نے 1971ء میں اپنی آنکھوں سے دیکھی اِس لیے ڈَر لگتا ہے کہ کہیں کوئی اور سانحہ راہ میں نہ ہو مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں سوائے دعا کے۔