اسلام آباد:خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ اگر مشرف پھانسی سے قبل انتقال کرجائیں تو ان کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائےجبکہ حکم دیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کریں اور پرویز مشرف کو مفرور کرانے والے ملزمان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
تفصیلی فیصلہ 169صفحات پر مشتمل ہے جس کو رجسٹرار خصوصی عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کے نمائندے کے حوالے کردیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کا نمائندہ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلہ کو لیکر عدالت سے روانہ ہوگیا۔خصوصی عدالت کے رکن جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے فیصلہ سے اتفاق کیا جب کہ بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے فیصلے پر اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلہ میں جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ لکھا کہ استغاثہ پرویز مشرف کے خلاف کیس ثابت نہیں کرسکا۔جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44صفحات پر مشتمل ہے,دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے.
فیصلہ میں لکھا گیا کہ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔جسٹس شاہد کریم نے لکھا کہ میری رائے میں مجرم پرویزمشرف کو سزائے موت دیناکافی ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگائی اور سپریم کورٹ کے 15 ججوں کو برطرف کیا گیا۔
خصوصی عدالت نے لکھا کہ صوبائی ہائیکورٹس کے 56 ججز کو بھی برطرف کیا گیا، اس وقت کے چیف جسٹس کو گھر پر نظر بند کیا گیا۔
فیصلے کے مطابق جون 2013 کو اس وقت کے وزیراعظم نے ایف آئی اے کو سنگین غداری کی تحقیقات کی ہدایت کی۔
سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ سنگین غداری کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
انہوں نے لکھا کہ نومبر 2007 کا اقدام غیر قانونی ہوسکتا ہے لیکن سنگین غداری کا جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔ پرویز مشرف ججز نظر بندی کیس میں پہلے ہی ایک کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
میرے ساتھ ججز نے سنگین غداری کی تشریح آکسفورڈ ڈکشنری کی اصتلاح کے مطابق کی۔ جب تک اس لفظ کی تشریح نہ ہو عدالت کو منصفانہ فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔
جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سنگین غداری کے لفظ کی آئین میں کوئی تشریح نہیں۔
ایف آئی اے کی ٹیم نے 16 نومبر 2013 کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور دسمبر 2013 کو عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویزمشرف کو سزائے موت کا مختصر فیصلہ منگل17دسمبر کوسنایاگیاتھا۔