10 اکتوبر 2001ء، 9/11 کو پورا ایک ماہ گزر چکا تھا…… رعونت بھری اور قابو میں نہ آنے والے غصے سے کانپتی کرہ ارض کی واحد سپر طاقت امریکہ کے صدر بش دوئم نے پوری ہوائی طاقت کے ساتھ طالبان کی حکومت کو اُڑا دینے کی خاطر اور اسامہ بن لادن کو اپنی دسترس میں لے لینے کے لیے پاکستان کے فوجی جرنیل اور ناجائز آئینی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے غیر مشروط تعاون کے ساتھ ملک افغاناں پر اندھا دھند بموں کی بارش کرنے اور یوں زمانے کی سب سے بڑی طاقت و قوت کے زور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی ٹھان رکھی تھی…… شمالی افغانستان میں اس وقت کا مشہور شمالی اتحاد اس کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکا تھا…… بھارت ہم آواز بن گیا تھا لیکن اصل اور فیصلہ کن عامل جنرل مشرف کی جانب سے ایک ہی ٹیلی فون کال پر مملکت پاکستان کے تمام وسائل واشنگٹن کے حکمرانوں کے چرنوں پر ڈال دینے اور قدم قدم پر تعاون کرنے کا اعلان ثابت ہوا …… اس طرح پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور شرمناک یوٹرن لیتے ہوئے اس مشرف نے جو ایک دو ماہ پہلے تک کابل میں طالبان کی حکومت کا بڑا حامی بنا پھرتا تھا تاریخ کا ایسا ورق پلٹا جس کے کاری زخموں کو چاٹنے پر ہماری قوم اب تک مجبور ہے…… اس تمہید کو مختصر کرتے ہوئے یہ بتانا مقصود ہے 10 اکتوبر 2001 کو جب مشرف کی بندوق بردار اور ٹینکوں پر بیٹھ کر آئی ہوئی حکومت رعب اور دبدبے کے لحاظ سے اپنے عروج پر تھی تب ہمارے اس ڈکٹیٹر اور امریکہ کے اس وقت کے وزیرخارجہ جان پاول نے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا اعلان کرنا تھا…… نصف النہار پر 12 بجے پریس کانفرنس کا وقت طے تھا جسے پی ٹی وی پر براہ راست نشر ہونا تھا اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں کے کیمرے ایوان صدر کے اس کمرے میں نصب تھے جہاں سے دونوں کے اعلان نے گونج بن کر لمحے کی سب سے بڑی خبر کا روپ دھارنا تھا…… واضح رہے اُن دنوں پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا رواج نہیں پڑا تھا اور سوشل میڈیا نامی مخلوق سے ہماری قوم زیادہ واقفیت نہیں رکھتی تھی لہٰذا پی ٹی وی واحد برقی ذریعہ ابلاغ تھا اور اس کے ذریعے پاکستان اور امریکہ دونوں کی تاریخ کا اہم باب کھلنے والا تھا…… پی ٹی وی والوں نے اہتمام کیا کہ 12 بجے پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے 10 سے 12 تک آدھ آدھ گھنٹے کے SLOT میں کچھ صحافیوں کو بلا کر ان سے باری باری ناظرین کو صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہ رکھنے کی سعی کی جائے…… مجھے بھی اس زمانے میں وقتاً فوقتاً حالاتِ حاضرہ پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے بلا لیا جاتا تھا…… کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میری باری سے قبل 11 اور 11:30 بجے کے SLOT پر مرحوم ارشاد احمد حقانی نے اپنا نقظہ نظر پیش کیا اس کے فوراً بعد اور اتنی بڑی پریس کانفرنس کے عین آدھ گھنٹہ پہلے مجھ نادار کو بھی اسلام آباد کے ایک شریک گفتگو کے ساتھ خیالات پیش کرنے کی دعوت دی گئی…… لاہور سٹوڈیو میں داخل ہونے سے پہلے یہاں کی انتظامیہ نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ عطاء صاحب آپ کو بلا تو لیا ہے اور آپ کے خیالات سے بھی ہم بخوبی واقفیت رکھتے ہیں لیکن براہ کرم ہتھ ہولا رکھئے گا…… اپنی بات ضرور کیجئے گا لیکن انتہائی دھیمے لہجے میں …… میں نے انہیں حوصلہ دیا اور لاہور سٹوڈیو میں کیمرے کے سامنے جا بیٹھا…… اسلام آباد کے ساتھی نے تھوڑی سی گفتگو کی اس کے بعد میری باری آئی تو سینے میں جو آگ بھڑک رہی تھی اس کے شعلے باہر نکل آئے…… پروگرام براہ راست نشر ہو رہا تھا…… جنرل مشرف اور جان پاول پریس کانفرنس کی تیاری کر کے غالباً سامنے بیٹھے ہوئے تھے…… میں بے اختیار بول اٹھا اور الفاظ قابو میں نہ رہے…… ڈنکے کی چوٹ کہا امریکہ پاکستان کو جس آگ میں جھونک رہا ہے اس میں ہمارے ریاستی وسائل تو جل کر خاک ہو جائیں گے ہماری حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) میں بھی اگر کوئی رمق باقی رہ گئی ہے تو ملیامیٹ ہو جائے گی…… میں بے تکان بول رہا تھا…… اسی سانس میں کہا امریکی وزیرخارجہ یہاں بیٹھے ہیں وہ محض طالبان جنگجوؤں کے ساتھ نہیں پوری افغان قوم اور اس کی تاریخ جس نے ہمیشہ حملہ آور طاقتوں کا پانسہ پھیر کر رکھ دیا ہے اور انہیں ذلیل و خوار کر کے واپسی پر مجبور کیا ہے…… سابق سوویت یونین کی مانند یہ بھی جلد اپنا حشر دیکھ لیں گے…… چاہے کتنے سال اس کی نذر ہو جائیں …… میرے Slot کا وقت ختم ہوگیا…… پریس کانفرنس شروع ہوا چاہتی تھی میں سٹوڈیو روم سے باہر نکلا…… لاہور سٹیشن کی ساری انتظامیہ پریشان کھڑی تھی…… انہوں نے میرے طرزِ کلام پر سخت احتجاج کیا اور جو کچھ کہا ہوگا آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں …… میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور یہ سوچتا ہوا باہر نکل آیا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آئندہ مجھے کسی پروگرام میں بلایا نہیں جائے گا جس کی
مجھے پروا نہیں تھی…… تاہم اگلے ہی روز کرنٹ افیئر شعبہ کے اس وقت کے مرحوم انچارج نے مجھے بتایا کہ کل کی Slot پر چاروں سٹیشنوں سے انہیں جو فیڈبیک ملا ہے اس میں میرے دھماکہ خیز بیان کی سب سے زیادہ تائیدو تحسین کی گئی ہے……
آج جبکہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور افغانستان میں حالات میں حیرت انگیز حد تک جو پلٹا کھایا ہے اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا کہ ہمارے باشعور قارئین گزشتہ 3، 4 دن کے دوران گزرے ایک ایک لمحے سے آگاہی رکھتے ہیں …… عالمی امور کی باریکیوں پر نگاہ رکھنے والے دنیا بھر کے تھنک ٹینکوں میں بیٹھے ہوئے اور دارالحکومتوں کے پالیسی ساز اداروں کے ذریعے حکمرانی کرنے والے داناورطہئ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں …… سب جگہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی ماہرین کے ہاتھوں دو ٹریلین ڈالر کا زرِکثیر صرف کر کے تین لاکھ کی تعداد میں کمانڈروں، افسروں اور جوانوں پر مشتمل جو افغان فوج 20 سال کی محنت شاقہ کے نتیجے میں کھڑی کی گئی تھی اور اسے حالت جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی وہ طالبان جو ایک لاکھ سے زیادہ نہیں کی یلغار کے آگے تنکوں کی طرح کیسے بکھر گئی…… اور یوں امریکہ سمیت تمام یورپی سرپرستوں اور ان کی آواز میں آواز ملانے والے جغادری دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی شرمندگی کا باعث کیونکر بنی…… اس کا ایک جواب جو عمومی طور پر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فوجی پرلے درجے کے تنظیمی فقدان کا شکار تھے…… ان میں ڈسپلن نام کی چیز عنقا تھی…… وفاداریاں مشکوک تھیں …… جہاں حملہ کرتے اس بستی سے مال و زر سمیٹ لینے کی ہوس میں مبتلا رہتے تھے…… انہوں نے کیا خاک لڑنا تھا…… امریکی صدر جوبائیڈن نے تازہ ترین تبصرے میں اس پر اتنی پخ لگائی ہے کہ افغان فوج لڑنے کے عزم سے محروم تھی…… پہلا سوال یہ ہے کیا امریکی پالیسی سازوں کو 20 سال کے بعد اس حقیقت سے آشنائی ملی ہے کہ جس افغان فوج کو اتنی محنت اور توجہ کے ساتھ تیار کرتے اور قدم قدم پر اپنی رہنمائی میں لڑاتے رہے وہ کسی بھی فوجی میں پائی جانے والی بنیادی صفت یعنی دشمن کو ہر حالت میں نیچا دکھانے اور جنگ میں شکست دینے کے عزم و ارادے سے محروم اور بددلی کا شکار ہے…… اس میں سرے سے مقصد کی لگن نظر نہیں آتی تھی وہ پیشہ ور فوجیوں میں پائی جانے والی کم از کم صفات سے بھی محروم ہیں …… اگر بیس سال گزر جانے کے بعد امریکیوں کو اپنی پالتو فوج کے بارے میں اس حقیقت کا علم ہوا ہے تو تف ہے ان کی عقل و دانش اور وار سٹرٹیجی بنانے والوں پر اس شکست فاش میں افغان فوجیوں کا کم اور امریکہ اور نیٹو کے عسکری ماہرین اور سیاستدانوں کا قصور زیادہ ہے لیکن اس امر واقعہ سے ابھی تک صرف نظر کیا جا رہا ہے یا ہمیشہ کے سامراج کی مانند امریکی بھی اسے بھانپنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان کی تیارکردہ افغان فوج طالبان کی لڑاکا قوت کے ساتھ نہیں بلکہ پوری کی پوری افغان قوم کے ساتھ برسر جنگ تھی…… یہ آج نہیں صدیوں سے آزاد منش لوگ چلے آ رہے ہیں …… بندوق ان کا زیور ہے اور بیرونی قوتوں کے غلبے سے نبردآزما ہونے کا جذبہ ان کے جسم کی ایک ایک رگ میں پایا جاتا ہے…… جہاد کا جذبہ ان کے لئے مہمیز کا کام دیتا ہے…… 19ویں صدی کے نصف آخر میں دو جنگوں کے ذریعے انہوں نے انگریز فوج کے چھکے چھڑا کر رکھ دیئے تھے اور یہ توکل کی بات ہے کہ 20ویں صدی کے آخری عشرے میں انہوں نے وقت کی سب سے بڑی جنگی مشینری کی حامل سوویت سرخ فوج کا منہ پھیر کر رکھ دیا تھا…… وہ ایسی ذلت کا شکار ہوئی کہ ہمارے وقت کی سب سے بڑی سوشلسٹ نظریاتی سپر طاقت اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے بکھر گئی…… امریکی جو صرف چار دہائیاں قبل ویت نام کی شکست سے ملنے والی حزیمت سے ابھی تک نکل نہیں سکے ان کے آگے کیا بیچتے ہیں ……
اس جنگ کی دو دہائیوں کے دوران مجھے البتہ یہ تشویش لاحق رہی کہ طالبان کی فتح جو روزاوّل سے نوشتہ دیوار بن کر نظر آتی تھی اس بار بھی یہ لوگ اپنی پہلی حکومت (1996-2001) کی طرح دوبارہ برسراقتدار آئیں گے تو اپنے ہم مذہب ہم مسلک تاجک بھائیوں جو کل آبادی کے 37 فیصد سے کم نہیں اور تقریباً 15 فیصد ازبکوں کے علاوہ شیعہ ہزارہ مسلک کی چھوٹی سی اقلیت کو یکسر نظرانداز کر کے اپنے لئے پہلے جیسے مسائل کھڑے نہ کر لیں …… یہ بات میں اس سے قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ 1997 میں جب پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد اس حکومت کو تسلیم کر لیا تھا تو میں نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو ایک نشست میں اس خطرے سے آگاہ کیا تھا کہ شمالی اتحاد والے تاجک و ازبک بھارت اور ایران کی شہ پر طالبان کی بظاہر مضبوط نظر آنے والی حکومت کے وجود کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں …… پھر ان سب نے مل کر 10 اکتوبر 2001 کو امریکہ کا ہاتھ بٹا کر طالبان حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں مدد کی چنانچہ قارئین گواہ ہیں کہ پچھلی 20 سالہ جنگِ مزاحمت کے دوران جہاں میں اپنی معروضات کے ذریعے طالبان کی بھرپور حمایت کرتا رہا وہیں اس خطرے کے دوبارہ عود کر آنے کی طرف توجہ دلاتا رہا…… تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ گزشتہ اتوار کو طالبان نے کابل پر اپنی فتح کے فوراً بعد افغان آبادی کے تمام نمائندوں کو شریک حکومت کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے…… خواتین اور سیاسی مخالفوں کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ان کی تلافی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے خواتین کو یقین دلایا ہے کہ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنے فرائض سرانجام دے سکتی ہیں …… اعلیٰ تعلیم کے دروازے بھی ان پر ہرگز بند نہیں کئے جائیں گے اور ظاہر ہے طالبان مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دے سکتے جو کسی بھی قدامت پسند اسلامی معاشرے میں امر نامطلوب سمجھا جاتا ہے…… معلوم ہونا چاہئے کہ مذہبی قدامت پسندی افغان معاشرے اور تاریخ کی جڑوں میں اتری ہوئی ہے اسے کھوکھلے لبرلزم کی کدال لے کر اکھاڑ پھینکنا ہمیشہ الٹے نتائج کا باعث بنا ہے…… طالبان کے لئے کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے سر پر چادر اوڑھے ہوئے یعنی روایتی شٹل کاک برقعے کی بجائے حجاب پہنے اپنی خواتین کو اینکر کے طور پر ٹی وی پروگرام کرنے کی اجازت دے دی ہے یہ اسلام کی پاکیزہ تہذیبی روایات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرمایئے اور طالبان کو اپنا کام کرنے کا پورا موقع دیجئے جبکہ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اپنے وطن کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے اندر مسلح سرگرمیوں کے حق میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے…… طالبان اپنی فتح کو پائیدار بنانے کے لئے اپنے قومی وقار، حاکمیت اعلیٰ اور اسلامی تشخص اور کردار کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے وسیع النظری کا مظاہرہ کریں …… تاہم ان کے لئے اس پر نگاہ رکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ امریکہ طالبان کی قیادت میں نئی حکومت کے ساتھ دوستی کا ماحول اور اعتماد کی فضا پیدا کر کے انہیں خطے میں اپنی نئی گریٹ گیم کا مہرہ بنانے کی ظاہری یا خفیہ کوششیں شروع نہ کر دے……