افغانستان کے صوبائی مراکز یکے بعد دیگرے جس تیزی کے ساتھ خزاں کے سوکھے پتوں کی طرح طالبان کے آگے گرتے چلے گئے اور آخر میں جس انداز سے سقوط کابل کی کارروائی کو دنیا نے دیکھا یہ واقعات اور سیاسی پیش رفت عقل انسانی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کے پس پردہ عوامل کی کھوج لگائے کہ امریکہ اور طالبان جو آج تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ افغانستان میں ایک دوسرے کے ساتھ یوں پیش آرہے ہیں جیسے لکھنؤ کے پرانے روایتی نو اب ایک دوسرے سے پیش آیا کرتے تھے کہ قبلہ پہلے آپ جی نہیں حضور پہلے۔ مختصراً طالبان نے ایک گولی چلائے بغیر افغانستان کاکنٹرول سنبھال لیا۔ کابل انخلا کے مناظر کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اس انخلا سے امریکہ کی 1975ء میں ویتنام وار میں شکست کے عبد سائیگان سے انخلا کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں لیکن دیکھا جائے تو کابل سائیگان سے زیادہ عبرت ناک اور ذلت آمیز ثابت ہوا یہ تاریخ میں محفوظ ہو چکاہے۔
آج کے طالبان 1996ء والے طالبان نہیں رہے اس وقت یہ صرف فائٹر تھے۔ مدارس سے نکل کر جب یہ سیدھے اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق اسلام کی جو تفسیر سمجھی اس سے ایک انچ آگے پیچھے ہونے سے نکار کر دیا اس وقت ان کے اندر سمجھوتے نہیں تھے بلکہ یہ لفظ ان کی ڈکشنری میں شامل ہی نہیں تھا مگر اس کے برعکس طالبان کی دوسری نسل بہت سیاسی ہو چکی ہے۔آپ اندازہ لگا لیں کہ 2001ء سے 2021ء تک طالبان مزاحمت کے دوران اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرتے رہے ہیں یا ان کے ذرائع محصولات کیا تھے جب پوری دنیا سے امریکہ نے فنڈز کی ترسیل میں ان کی بڑی سخت ناکہ بندی کر رکھی تھی۔
بات طالبان کی سیاست کی ہو رہی تھی آج کے طالبان افغانستان پر Focused ہیں اور افغانستان ہی ان کی توجہ کا مرکز ومحور ہے۔ اسی لیے مودی سے ملاقات کے وقت انہیں ہندوستان کے کشمیریوں پر مظالم کا پتہ تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے سیاسی ملاقات کی۔ ان کے روس کے ساتھ تعلقات میں خیر سگالی کا عنصر غالب آ چکا ہے سب سے بڑھ کریہ کہ وہ چائنا کے ساتھ نہایت گرم جوش ہوچکے ہیں اور اس بات کا ذکر ہی نہیں کرتے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی گروپوں کے ساتھ چائنا کیا سلوک کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے لیے طالبان کی طرف سے سیاسی پیغام ہے کہ وہ اسلام کے ٹھیکیدار نہیں ہیں بلکہ صرف اپنے ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاست کا سب سے بڑا سنگ میل قطر میں طالبان آفس کا قیام ہے جس کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا سارا خرچہ امریکہ اٹھا رہا تھا یہی وہ چینل تھا جس سے سفارتکاری کے ذریعے طالبان نے دنیا کے سامنے اپنا سیاسی چہرہ پیش کیا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے طالبان جن کی ابتدا Made in Pakistan کے عنوان سے ہوئی تھی۔ اب پاکستان کے ساتھ بھی اپنی شرائط پر بات کرتے ہیں امریکی اڈوں کے معاملے پر طالبان واضح طور پرپاکستان کو دھمکی دے چکے ہیں۔ حالیہ دیکھ لیں چمن سپن بولدک بارڈر پر قبضے کے بعد اسے پاکستان نے نہیں طالبان نے بند کیا تھا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان افغان شہریوں کے لیے ویزا کی شرط بند کرے اور بلا امتیاز افغانوں کو بلا روک ٹوک پاکستان میں داخل ہونے دے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اگر پاکستان یہ مطالبہ مانے گا تو اس پر سب سے زیادہ اعتراض امریکہ کو ہو گا حالانکہ امریکہ اندر سے چاہتا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کو قبول کرے تا کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر افغانوں کی نقل مکانی کا دباؤ کم کیا جائے مگر پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ ٹی ٹی پی کے جو دہشت گرد اس وقت افغان بارڈر کی جانب سے پاکستان آرمی پر فائرنگ کرتے ہیں وہ مہاجرین کے روپ میں پاکستان آ جائیں گے۔ ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ ولی محسود افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں وہاں سے اس نے CNN جیسے امریکی چینل کو انٹرویو دیا ہے جو نشر ہو چکا ہے گویا اب امریکی سر زمین پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا وار کے لیے استعمال کی جا رہی ہے جبکہ امریکہ اپنی پالیسی کے بر خلاف دہشت گردوں کو Glorify کرنے کا کام کر رہا ہے جو سہولت کاری کے زمرے میں آتا ہے۔
طالبان کے معاملے میں روس اور چین کے درمیان خاموش مفاہمت ہو چکی ہے کہ یہاں سے امریکی باب بند کیا جائے روس چونکہ War Cost یا جنگی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں لہٰذا اس نے چائنہ کو آگے کر دیا ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ طالبان حکومت کو سب سے پہلے چائنا نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہاں اپنا سفارتخانہ جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ا گر چائنا افغانستان کو سی پیک نیٹ ورک میں لانے میں کامیاب ہو گیا تو سمجھیں کہ امریکہ کی یہاں سے مستقل چھٹی ہو جائے گی بلکہ افغانستان کے راستے سی پیک ازبکستان اور روسی ریاستوں سے ہوتا ہوا یورپ میں داخل ہو جائے گا جس سے انڈیا اور امریکہ خطے میں کھڈے لائن لگ جائیں گے۔ اور یہ بعید از امکان نہیں ہے۔ لیکن اس
کا یہ مطلب بھی نہیں کہ امریکہ چین سے دب جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے سی پیک کا راستہ روکنے کے لیے افغانستان اور پاکستان میں پشتون کارڈ کھیلنے کا آپشن آن رکھا ہوا ہے تا کہ خیبر پختونخوا میں بلوچستان جیسے حالات پیدا کر کے علیحدگی پسندی کے نظریہ کی آبیاری کی جائے۔
پاکستان کو اس وقت ٹی ٹی پی کو دوبارہ حرکت میں آنے سے روکنے کا چیلنج در پیش ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور طالبان کے تعلقات غیر اعلانیہ طور پر کسی نہ کسی لیول پر موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی نئی حکومت پاکستان سے کس طرح کے تعلقات چاہتی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہیں سربراہ بنایا جائے گا انہیں پاکستان نے جذبہئ خیر سگالی کے تحت جیل سے رہا کیا تھا امید رکھنی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں گے۔
طالبان کی واپسی کی اشرف غنی سے بھی زیادہ اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ انڈیا ہے۔ کرزئی اور غنی حکومتوں کے دور میں انڈیا نے افغان سر زمین کو کھلے عام پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان میں انڈیا کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں انڈیا کی ساری سیاست ایک ڈبے میں بند ہو کر ایک کونے میں دھکیل دی گئی ہے۔ یہ بات اس نے انڈین نجی ٹی وی چینل پر کی ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مودی کی حالیہ کیفیت کیا ہے۔ بہرحال جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا حالات واضح ہوتے جائیں گے۔
”بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“
10:49 AM, 19 Aug, 2021