پوری قوم نے وطنِ عزیز کا 75 واں یوم آزادی ملّی جوش و جذبے سے منایا۔ اس میں کیا کلام کہ یقینا ایک غیر معمولی دن ہے، اور اسے ایک بھرپور اور پُروقار طریقے سے منایا جانا چاہیے۔ لیکن14 اگست کی شام ہی سے سوشل میڈیا پربے شمارتصاویر اور ویڈیو وائرل ہوئیں، جس میں مزار قائدکی چھت پر لوگ چڑھتے نظر آئے اور اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد ایک پارک کا منظر پیش کررہی تھی۔ سڑکوں پر تیز رفتار جھومتی گاڑیاں اور ایک مخصوص قسم کا باجا جسے ہر دوسرے بندے نے منہ سے لگا کرنہ تھمنے والا شور و غُل برپا کر رکھا تھا۔ یہ سب دیکھ کریہ محسوس ہورہا تھا کہ قوم بسنت کے میلے اور یوم آزادی کے فرق سے 75 سال کے بعد بھی ناآشنا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ میلے ٹھیلوں اور قومی تہواروں پر کیا طور طریقے اختیار کئے جانے چاہئیں۔ جس وقار اور متانت کا تقاضا یہ قومی تہوار کرتے ہیں، ہم ہر سال اجتماعی طور پر اس سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اسباب کیا کیا ہیں؟
آج کل الیکٹرانک میڈیا اِبلاغ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مگر بد قسمتی سے یہاں پر اجارہ داری ہے فن کے نام پر بھانڈ پن اور پھکڑ پن کرنے والوں کی۔ یا پھر ہر انتخابات میں سیاسی وفاداریاں بدلنے والے سیاست دانوں کی۔ اُن کا کام صرف اور صرف اپنی جماعت کی قیادت کی ہر صحیح اور غلط بات کا دفاع کرنا اور مخالف کی درست بات کی بھی نفی کرنا ہے۔ مذہبی تہوار ہوں، قومی دن ہوں،یہ ہی دو طبقے ہمیں رمضان کی افادیت پر بھی لیکچر دیں گے، یومِ آزادی پر بھی ٹی وی سکرینوں پر قابض رہیں گے اور محرم کے دوران بھی غم مناتے نظر آئیں گے۔ رمضان کی روح کیا ہے؟ یومِ آزادی کا پس منظر کیا ہے؟ اور واقعہ کربلا کے انقلابی پہلو کیا ہیں؟ اِس سے یہ بے خبر ہیں۔ ہمارے معلم، سکالر اور دانشور جو ہمیں مذہبی اور قومی تہواروں اور دِنوں کے حوالے سے بہترین معلومات دے سکتے ہیں اور ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں، ریٹنگ کے بُخار میں مبتلا میڈیا پر اُن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نقار خانے میں علامہ خادم حسین رضوی مرحوم، کا ایک ویڈیو کلپ بھی گردش کرتا رہا جس میں وہ اس قومی دن پر شُغل اور غُل غپاڑے پر تنقید کرتے ہوئے تجویز دے رہے ہیں کہ آج کی نسل کو بتایا جایا کہ کس طرح لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر یہ وطن حاصل کیا گیا۔ ہزاروں مسلمان عورتوں کی عزتو ں کو داغدار کیا گیا۔ کتنے ہی علما و مشائخ اور حُریت پسندوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کا عَلم بلند کیا اور سزائیں پائیں۔ علامہ مرحوم نے یہ تجویز بھی دی کہ چودہ اگست پر لاہور کے مال روڈ پر دوپٹے لٹکائے جائیں کہ آج کی نسل کو احساس ہو کہ کتنی جانوں اورعزتوں کا جنازہ نِکلا تو یہ سرزمین انگریز اور ہندو کے جبر سے آزاد ہوئی۔ لیکن افسوس کہ وزراء اپنے اپنے حلقوں میں پرچم کُشائی کی رسوم بغیر روح کے ادا کرتے ہیں اور ٹی وی سکرینوں پر اداکاروں اور گلوکاروں کا ہجوم ہوتا ہے جو لہک لہک کر اور گاگا کر اپنے قومی ”فریضے“ کو انجام دیتا ہے۔
ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ترقی پسندی کے خُمار میں مبتلا ہے۔جس کے لیے اُس طبقے نے یہ طے کررکھا ہے کہ جب تک و ہ اسلام پر تنقید، تقسیم کی مخالفت اور ہمارے قومی ہیروز کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرے گا اُس کی ترقی پسندی مکمل نہیں ہوگی۔ اُن کا نقطہ نظر ہے کہ اِس خطے میں بسنے والے ثقافتی طور پر ایک ہیں تو پھر یہ سرحدیں کیوں؟۔اِ س فِکر کی تائید میں وہ آئے دن بھارت میں بسنے والے کسی فرد کی روداد نقل کردیتے ہیں جو موجودہ پاکستان میں پیدا ہوا تھا اور اپنی جنم بھومی کے فراق میں بیتے دِنوں کو یاد کرکے افسردہ رہتا ہے۔ ہمارے ترقی پسند اس کیفیت کے نفسیاتی پہلوؤں کو نظر انداز کرکے اپنی خواہشات کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ثقافت اور چیز ہے اور ملکوں کا قیام اور۔ عرب ممالک ثقافتی یگانگت کے ساتھ ممالک میں تقسیم ہیں، یہ ہی حال یورپ کا ہے۔ثقافتی یگانگت پر یاد آیا کہ 2001-2 ء میں فخر زمان صاحب نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں پنجابی ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ جس میں دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ بھارت کے بھی پنجابی زبان کے ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی۔راقم بھی عام شرکاء میں تھا۔ تقریب کے اختتام پر دیگر مہمانوں کے ساتھ جب ہوٹل سے باہر نکلے تو ایک سبز رنگ کی جیپ کھڑی تھی۔جن صاحب کے ت صرف میں وہ جیپ تھی وہ ذاتی طور پر اس تقریب میں شریک ہوئے تھے کہ عام لباس میں تھے۔ موصوف جاتے جاتے ایک پنجابی شاعرہ کو تلقین کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انوں (اٹل بہاری واجپائی) آکھیوں کہ بندے دا پُتر بن جائے تے اَسی اک ہوجایئے۔(اُسے کہیں کہ انسان کا بچہ بن جائے کہ ہم ایک ہوسکیں)۔ خدا جانے جناب کا اشارہ اکھنڈ پنجاب کا تھا یا کچھ اور۔
ترقی پسندی اور ثقافتی یگانگت کے بُخار میں مبتلا افراد کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تقسیم کی ضرورت اور اسباب وجوہات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں سے صرف ایک حوالہ بارہ جلدوں پر مشتمل ”پاکستان کی سیاسی تاریخ“ کی اُ س کتاب سے پیش کروں گا جو معروف مؤرخ اور مارکسی دانشور حسن جعفر زیدی اور ان کے قابلِ احترام فاضل استاد زاہد چودھری نے تحریر کی ہے۔اس کی پانچویں جلد ”مُسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا“ ہے۔ اس میں باب نمبر چار کا عنوان ”فضل حسین، یونینسٹ پارٹی اور ہندو۔ مسلم تضاد“ ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ ہے جب متحدہ پنجاب کے مسلمان وزیر تعلیم سر میاں فضل حسین نے لاہور کے میڈیکل کالج اور گورنمنٹ کالج میں مسلمان طلبا کے لیے چالیس فیصد نشستیں مختص کردیں، میونسپل کمیٹیوں میں جہاں مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے کم نشستیں حاصل تھیں،ان کی نمائندگی تناسب آبادی کے مطابق بڑھا دی اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا کوٹہ چالیس فیصد مقرر کردیا۔ تو ہندو کا مسلم تعصب کُھل کر سامنے آیا۔میڈیکل کالج میں مسلمان طلبا کے داخلوں میں ہندو اساتذہ نے مختلف حیلے بہانوں سے رکاوٹیں ڈالیں کہ وہ چالیس فیصد کوٹہ نہ حاصل کرپائیں۔ پنجابی ہندؤں کا درمیانہ طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ اس قدر تنگ دل اور تنگ نظر تھا کہ وہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی رعایت دینے پر تیار نہ تھا۔ ہمارے یہاں سر گنگا رام کی سخاوت اور انسان دوستی کا بہت ڈھول پیٹا جاتا ہے، وہ بھی کُھلم کُھلا یہ اعلان کرتے تھے کہ ان کے فلاحی اداروں سے کوئی مسلمان مستفید نہیں ہو سکتا (اس حوالے سے متضاد نقطہ نظر موجود ہیں)۔لاہور شہر کے انار کلی بازار میں کوئی مسلمان کسی ہندو کے ہاتھ سے گلاس میں پانی نہیں پی سکتا تھا، اُسے دور ہی سے ہاتھوں کو پیالے کی شکل دے کر پانی پلایا جاتا۔ لوہاری چوک میں ایک ہندو کی بہت بڑی دودھ دہی کی دکان تھی۔ اس نے مسلمان گاہکوں کے لیے الگ گلاس رکھے ہوئے تھے جنھیں وہ پینے کے بعد خود ہی دھو کر رکھ دیتے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ہندو تنگ نظری اور تعصب کی۔
ہمارے اساتذہ، معلمین، سکالر، دانشوروں اور ادیبوں کو بھی چاہیے کہ آگے بڑھیں اورگوشہ نشینی کو تَرک کرتے ہوئے ایک مرکزی پلیٹ فارم تشکیل دے کر وہاں سے قوم کی علمی تربیت کریں۔ اُمید ہے کہ آنے والے یومِ آزادی ہم بھرپور قومی جذبے اور وقار کے ساتھ منائیں گے۔