اسلام آباد :پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت بھی ملتی تو ان کے خیال میں نواز شریف وزیراعظم نہ بنتے اور شہباز شریف کو ہی وزیراعظم بناتے۔وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ اگر مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت بھی ملتی تو ان کے خیال میں نواز شریف وزیراعظم نہ بنتے اور شہباز شریف کو ہی وزیراعظم بناتے۔
ان کاکہنا تھاکہ پاکستان کو نواز دو‘ کا اشتہار اور نعرہ ووٹرز کے ساتھ دھوکہ دہی نہیں ہے کیونکہ مریم نواز اور شہباز شریف خود نواز شریف کا ہی تسلسل ہیں۔عرفان صدیقی کے مطابق لندن میں ان کی نواز شریف سے الیکشن سے قبل ملاقاتیں ہوئیں جس میں انہوں نے یہ اخذ کیاکہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننا چاہتے۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیاکہ نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے سے ووٹرز کی دل شکنی ہوئی ہے اس لیے نواز شریف کو پارٹی کی جانب سے صدارت سنبھالنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو امید ہے وہ قبول کرلیں گے۔ اس اقدام سے کارکنوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائےگا۔
عرفان صدیقی نے کہاکہ نواز شریف کی پنجاب اور وفاق میں اس وقت بھی حکومت ہے۔ پاکستان میں کوئی بڑی پیشرفت ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے اندر سب سے زیادہ زیرک سیاستدان وہ ہیں۔اس سوال پر کہ نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ تنور پر روٹی کا بھاؤ پوچھنے جا رہے ہیں تو اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ کسی پیٹرول پمپ کا دورہ کیوں نہیں کرتے، عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم اپنی صاحبزادی کے ساتھ ایک چھت تلے رہتے ہیں تو ان کے ساتھ دورے بھی کرتے ہیں اور چونکہ مریم نواز عملی سیاست میں نو آموز ہیں تو ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں اتحادی حکومت ہے اس لیے نواز شریف کا یہاں مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے۔ جہاں وزیراعظم کو ضرورت ہوتی ہے وہ مشورہ کر لیتےہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے تسلیم کیا کہ میڈیا کے محاذ پر مسلم لیگ نواز ناکام ہوئی ہے۔ میں متفق ہوں کہ چاہے سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا ہم پوری طرح نہ تو مخالف بیانیے کے سامنے دیوار بن سکے ہیں اور نہ ہم اپنے بیانیے، کارکردگی اور اقدار کو موثر طریقے سے سامنے لاسکے ہیں۔ میڈیا کے محاذ ہر ہماری کمزوری برسوں سے چلی آ رہی ہے اور وہ آج بھی موجود ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اس ناکامی کا کون ذمہ دار ہے تو عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کی ذمہ دار جماعت ہے، پارٹی کو اپنے لوگوں کو اکٹھا کرکے جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں میڈیا کے محاذ پر اپنی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک واقعہ ہو جاتا ہے اور ہم 24 گھنٹے اس پر ردعمل نہیں دیں گے تو نقصان ہوگا۔اس حوالے سے پارٹی ترجمان یا وزیراطلاعات وغیرہ کو ذمہ داری کے ساتھ موثر طریقے سے پارٹی موقف کو پیش کرنا چاہیے جو کہ نہیں ہورہا، میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا شہباز شریف کو مستقبل میں اپنے ہی وزیرداخلہ محسن نقوی سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ وزیراعظم جس کے پیچھے عوام میں مضبوط جڑیں رکھنی والی جماعت ہو بلکہ پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی سیاسی جماعتیں ہوں اس کی طاقت زمین کے اندر ہوتی ہے۔ باقی لوگ جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آتے جاتے رہتے ہیں ان سے وزیراعظم کو خطرہ نہیں ہوتا۔تاہم ان کا کہنا تھا محسن نقوی نے پنجاب میں اچھی کارکردگی دکھائی اس لیے وفاق میں ان سے کام لینا ملک کے لیے بہتر ہے تو ضرور لینا چاہیے۔
عرفاق صدیقی کے مطابق مسلم لیگ ن ’ووٹ کو عزت دو‘ اور سول بالادستی کے نعروں سے دستبردار نہیں ہوئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مسلم لیگ ن کی مخالفت ختم ہوگئی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ کون سی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کو عزت دینے کے خلاف ہوتی ہے۔