اسلام آباد : پاکستان کے معروف اینکر حامد میر نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ملاقات کرکے پیغام پہنچایا کہ وہ پرویز مشرف کے ٹرائل کی حمایت، بلوچستان اور لاپتا افراد کے حوالے سے کوریج سے باز آجائیں ورنہ اچھے نتائج نہیں ہوں گے۔
"وی نیوز" سے گفتگو کرتے حامد میر کا کہنا تھا کہ سال 2014 میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمات چلا رہی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ مشرف کو بچانے کے لیے ان کی عدالتوں میں غیر حاضری کے لیے مضحکہ خیز رکاوٹیں کھڑی کرتی تھی۔
اس بات کر ذکر جب میں نے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کیا تو وزیرِاعظم نواز شریف نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور ان سے پوچھا کہ کون مشرف کو ٹرائل سے بچانا چاہتا ہے۔ ’میں نے ابتدا میں ٹال مٹول سے کام لیا لیکن وزیرِاعظم کے اصرار پر میں نے بتایا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام ایسا کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کے چند منٹ بعد مجھے آگاہ کیا گیا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔
حامد میر کے مطابق ان دھمکیوں کے بعد انہوں نے جیو نیوز کی انتظامیہ کو باقاعدہ خط لکھ کر آگاہ کردیا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو 3 لوگ ذمہ دار ہوں گے جن میں ڈٖی جی آئی ایس آئی کے علاوہ سیکٹر کمانڈر اسلام آباد اور ایک مسلح جنگجو کا نام بھی شامل تھا جو بعد میں فوج کی تحویل سے فرار ہوگیا تھا۔
حامد کا کہنا ہے کہ 19 اپریل کو خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے کراچی جانا تھا۔ وہ حملے کے امکان سے آگاہ تھے اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے ایک دن قبل کوئٹہ کی فلائیٹ بک کروائی مگر عین وقت پر کراچی روانہ ہوگئے۔ جب میں کراچی ایئرپورٹ پہنچا تو اپنے اہلِ خانہ کو اطلاع دی اور ایک دفعہ یہ خیال آیا کہ واپس اسلام آباد چلا جاؤں لیکن پھر اس خیال کو جھٹک کرایئرپورٹ سے روانہ ہوا تو جیو نیوز کی پروڈیوسر مریم کا فون آگیا، اور انہیں بھی اطلاع دی۔
حامد میر کے مطابق کسی کام کے لیے انہوں نے اس وقت کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو بھی فون کیا اور اسی دوران گاڑی پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ انہوں نے فوری طور پر جیو کی پروڈیوسر کو دوبارہ اطلاع دی۔ ’اس دوران مجھے یوں لگا کہ مجھے سوئیاں سی چبھ رہی ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ گولی لگے تو وہ فوری محسوس نہیں ہوتی۔ اسی دوران میرا گارڈ مجھے کور دینے کے لیے پچھلی نشست پر آیا اور پھر مجھ پر گولیاں چلیں۔ ڈرائیور اور گارڈ سے بات چیت کے بعد فیصلہ کیا کہ سرکاری اسپتال کے بجائے پرائیویٹ اسپتال لے جایا جائے کیونکہ سرکاری اسپتال محفوظ نہیں تھا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ جب وہ اسپتال میں داخل تھے اور گولیاں لگی ہوئی تھیں تو پروپیگنڈا کی وجہ سے کئی لوگ ان کے زخم چیک کرتے۔ ’کوئی ڈاکٹر بن کر تو کوئی تفتیشی بن کر آتے تھے اور کہتے کہ ہمیں آپ کے زخم گننے ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر سے پوچھ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں 6 گولیاں لگی ہیں مگر آپ کپڑا ہٹا دیں۔
حامد میر پر حملے کے 2 دن بعد وزیرِاعظم نواز شریف کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی اس کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے۔ ان کے علاوہ اس کمیشن میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمید الرحمان شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 جج مجھے آج تک انصاف نہیں دے سکے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا انصاف شخصیت کے حساب سے کیوں ہوتا ہے۔