فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
جنگ بدر تاریخ انسانی کا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اللہ نے حق وباطل کے ا س پہلے معرکے میں اہل ایمان کو شاندار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکے میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔ کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں ۔ غم اور حزن کے سائے شہر پر چھا گئے۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنھیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ مستضعفین بے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لیے اب مکے کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔ اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، سالا ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس نے خانۂ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسلِ جنابت کرے گا۔
بدر کی اس عبرت ناک شکست کے بعد قریش کے شعرا نے مقتولین کے درد بھرے پرتاثیر مرثیے لکھے۔ ان مرثیوں کا رنگ عجیب ہے۔ مرثیوں میں میدان جنگ میں ڈھیر ہوجانے والے سورماؤں کی جدائی کا درد بھی نمایاں ہے اور قریش کی عظمت کے خاک میں مل جانے کا ماتم بھی عیاں ہے۔ ایک ایک شعر میں جذبۂ انتقام ابھارنے اور نفرت کی آتش بھڑکانے کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ اکثر لوگوں کو اب تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے۔
قریش مکہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ سو جنگجو شکست کے بعد میدانِ جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنی کثرت کے زعم اور قوت کے پندار کا حشر دیکھنے کے بعد اب انھیں بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس منہ سے گھروں کو واپس لوٹیں۔ اہلِ مکہ اپنی فوجوں کی شکست سے نہ صرف بے خبر تھے، بلکہ ان کے نزدیک ان کی فتح یقینی تھی۔ جب پہلا شخص شکست کی خبر لے کر مکے پہنچا تو کسی نے بھی اس کی بات کا یقین نہ کیا، بلکہ لوگوں نے اسے مجنوں قرار دیا۔ میدانِ بدر سے مکہ پہنچنے والا یہ سب سے پہلا شخص حیسمان بن ایاس خزاعی تھا۔ اہلِ مکہ اسے دیکھتے ہی اس کے گرد جمع ہوگئے اور اس سے جنگ کا حال پوچھنے لگے۔ شدت غم سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا: ’’بدر کے میدان میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی، ہمارے بہت سے بہادر جنگجو دشمن کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ میدان جنگ میں ہر جانب موت رقصاں تھی، مکے کے سردار اور فوج کے قائدین زندگی کی بازی ہارگئے‘‘۔ پھر وہ مقتولین کے نام گنوانے لگا۔ حاضرین سکتے میں آگئے اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مکے میں جنگ سے پیچھے رہ جانے والا سردار صفوان بن امیہ غصے میں دھاڑا اور کہا: ’’حیسمان کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سے ذرا میرے بارے میں پوچھو کہ میں کہاں ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’صفوان بن امیہ وہ سامنے پیٹھا ہے اور اس کے بھائی اور باپ کو میں نے قتل ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
حیسمان خزاعی کی باتیں سن کر کچھ لوگ متذبذب تھے مگر اکثریت نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اسی لمحے بدر سے آنے والا دوسرا فرد مکے میں داخل ہوا۔ یہ خاندانِ بنوہاشم کا چشم وچراغ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔ بنوہاشم میں ابولہب کے بعد یہی شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے بھی حیسمان کی حرف بہ حرف تائید کی تو اہلِ مکہ کے لیے شکست کی خبر پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ابوسفیان بن حارث خوش نصیب تھا کہ فتح مکہ کے وقت داخلِ اسلام ہوا اور غزوۂ حنین میں آنحضورؐ سے وفاداری کا حق ادا کردیا۔ یہ اہم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔
ابولہب اپنی اسلام دشمنی کے باوجود قریش کے ساتھ جنگ کے لیے نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ عاص اس کا مقروض تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی جانب سے جنگ پر جائے تو یہ قرض معاف کردیا جائے گا۔ وہ مکے میں جنگ کے نتائج کا بے قراری سے انتظار کررہا تھا۔ آب زمزم کے قریب بیٹھا قریش کی فتح کے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ تمھارا بھتیجا ابوسفیان بن حارث میدانِ جنگ سے آگیا ہے۔ اس نے بلند آواز سے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا: ’’بھتیجے بتاؤ جنگ کی کیا خبر ہے؟‘‘ ابوسفیان بن حارث نے کہا: ’’چچا! جنگ کی کیا خبر پوچھتے ہو؟ بات کہنے کی ہے نہ سننے کی۔ خدا کی قسم دشمن نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا اور جنگ کے بعد ہمارے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر قیدی بنالیا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کے علاوہ ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔۔‘‘
ابوسفیان کی باتوں نے ابولہب کی کمرتوڑ دی۔ اس کے گرد عام لوگ جو جمع ہوگئے تھے، وہ بھی حوصلے ہار بیٹھے۔ زمزم کے قریب بنے ہوئے حجروں میں سے ایک حجرے میں ابورافع بیٹھے نیزے بنارہے تھے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور تھے اور سماجی لحاظ سے بھی ان کا کوئی مرتبہ نہیں تھا۔ اسلام قبول کرچکے تھے، مگر مکے کے پرآشوب حالات کی وجہ سے اپنے اسلام کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس وقت وہ حضرت عباس کی پناہ میں تھے اور انھی کے لیے نیزے بناتے اور انھیں سیدھا کرتے تھے۔ ابوسفیان کی آواز سے جب انھوں نے عجیب مخلوق کا ذکر سنا تو حجرے کے دروازے کا پردہ ہٹا کر کہا: ’’خدا کی قسم! یہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے‘‘۔
ابورافع خود اس واقعہ کے راوی ہیں کہ جونہی ابولہب نے ان کی بات سنی وہ مشتعل ہوکر ان پر جھپٹا، انھیں زمین پر گرا کر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور انھیں بدترین ظلم کا نشانہ بنایا۔ حضرت عباس کی بیوی مشہور صحابیہ ام الفضلؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئی آئیں، ابولہب کے سرپر ایک چوب دے ماری اور اسے سخت سست کہتے ہوئے فرمایا: ’’اس کا سرپرست موجود نہیں، اس لیے تم اس پر ظلم ڈھارہے ہو‘‘۔ ابولہب جنگ کے نتائج سے پہلے ہی حوصلہ ہار بیٹھا تھا۔ ام الفضل کی جرأت نے اسے اور بھی رسوا کردیا۔ اس واقعہ کے بعد وہ چیچک اور طاعون کی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا جس میں اس کے اہل وعیال نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ساتویں دن ذلت ورسوائی کے ساتھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر واصل جہنم ہوا۔
حضرت عباسؓ نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ وہ قریش کی فوج میں تھے اورجنگ کے بعد انھیں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔ ام الفضل مسلمان ہو چکی تھیں۔ ابولہب کی موت پر اسے دفن کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہ تھا۔ حبشی غلاموں کو مزدوری دی گئی اور انھوں نے لمبی لکڑیوں کے ساتھ لاش کو باندھ کر ایک وادی میں پھینک دیا اور اوپر سے پتھر گرا دیے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس دشمن اسلام کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجی۔ باقی جتنے بھی بدترین دشمن تھے ان کا نام لیے بغیر ان کی مذمت کی گئی۔ اس شخص کے جرائم سب سے زیادہ تھے۔ یہ خوف کی وجہ سے جنگ بدر میں نہ گیا۔ یہ مال دار تھا، لیکن بزدل۔ اس کا انجام اللہ نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ مکہ کے وسطی دور میں اللہ نے سورۂ لہب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ۔ اُس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور (اس کے ساتھ) اس کی جورُو بھی، لگائی بجھائی کرنے والی، اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔‘‘
صدق خلیلؑ بھی ہے عشق، صبرِ حسین بھی ہے عشق!
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!