تاریخ میں ان لوگوں کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے جنہوں نے انصاف کو ملحوظ خاطر رکھا۔جنہوں نے انسانیت سے محبت کی۔ جنہوں نے انسانیت کا وقار بلند کیا۔جنہوں نے انسان اور مخلوق کو احترام بخشا۔برطانیہ، چین اور ملائیشیا میں ایک مشہور سپر سٹورز میں کام کرنے والے ایک لائق فائق منیجر کو بن داؤد سپر سٹورز مکہ میں کام کرنے کا اتفاق ہوا۔وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔وہ برطانوی نژاد تھا اور بزنس مینجمنٹ کی کتابوں میں اس نے ہمیشہ اپنے مد مقابل منافس (compititor) کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنا ہی سیکھا تھا اس کے لیے وہ ہمیشہ محنت اور نیک نیتی پر حد درجہ یقین رکھتا تھا اور اسے عملی جامہ بھی پہنانا جانتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ اس نے بطور ریجنل منیجر کے اپنی خدمات سرانجام دیں اور خوب دیں۔دریں اثنا اس نے دیکھا کہ ایک دوسرے نام کے سپر سٹور کی برانچ اس کے سٹور کے بالکل سامنے کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ وہ پورے آب و تاب کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔اپنے کام کو حتمی شکل دینے میں بھرپور وقت دے رہے ہیں۔مختلف زاویوں سے خوبصورتی کا ٹچ دے رہے ہیں۔گاہکوں کی توجہ کا مرکز بننے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔اس نے سوچا کہ یہ لوگ ادھر آکر اس کی سیلز پر اثر انداز ہوں گے اور دیوالیہ تک کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لہٰذا اس نے فوراً بن داؤد سپر سٹوز کے مالکان کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس نئے سپر سٹور کے متعلق کچھ معلومات، مشورے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے کی بہت ساری تجاویز دیں تاکہ مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ان سے چند قدم
آگے کیسے جایا جا سکتا ہے۔مگر حالات اس کی سوچ اور پیپر ورک کے بالکل الٹ نکلے۔اس کو زندگی میں حیرت کا شدید ترین جھٹکا لگا جب مالکان نے اس کو نئے سپر سٹور کے ملازمین کا سامان رکھوانے سٹور کی تزئین و آرائش اور ان کے چائے پانی کا خاص خیال رکھنے کا کہا اور اعلیٰ اخلاق سے پیش آنے کی تلقین کی۔اس کی حیرت کو ختم کرنے کے لیے بن داؤد سٹورز کے مالکان نے کہا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لائیں گے اور ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہوگا۔ہمارا رزق ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ہمارے مقدر میں لکھا کوئی چرا نہیں سکتا۔ہماری قسمت کوئی ہم سے چھین نہیں سکتا۔ہمارا نوالہ کسی اور مقدر نہیں بن نہیں سکتا۔ اپنے لکھے گئے رزق میں ہم ایک ریال کا اضافہ نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے اور نئے سٹور والوں کے رزق میں ہم ایک ریال کی کمی نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے۔
تو کیوں نا ہم بھی اجر کمائیں اور مارکیٹ میں نئے آنے والے تاجر بھائی کو خوش آمدید کہہ کر ایک خوشگوار فضا قائم کریں۔دوسرا واقعہ مشہور پولٹری کمپنی کا ہے۔ الفقیہ پولٹری کمپنی کے مالک نے مکہ مکرمہ میں ایک عظیم الشان مسجد(مسجد فقیہ) بھی تعمیر کی ہے۔ اس کی منافس کمپنی الوطنیہ چکن لاکھوں ریالوں کی مقروض ہوکر دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی۔ فقیہ کمپنی کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی مخالف کمپنی کے مالک کو ایک خط بھیجا اور ساتھ ایک دس لاکھ ریال سے زائد کا چیک بھیجا، اس خط میں لکھا تھا:’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیوالیہ پن کے قریب کھڑے ہو، میری طرف یہ رقم قبول کرو، اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو بتاؤ، پیسوں کی واپسی کی فکر مت کرنا، جب ہوں لوٹا دینا‘‘۔ اب دیکھئے کہ ارب پتی شیخ الفقیہ کے پاس الوطنیہ کمپنی خریدنے کا ایک نادر موقع تھا لیکن اس نے اپنے سب سے بڑے مخالف کی مالی مدد کرنے کو ترجیح دی۔اوپر بیان کیے گئے دو سچے واقعات آپ کو اسلامی تجارت کے اصولوں سے متعارف کراتے ہیں، کسی مخالف کمپنی سے پریشان نا ہوں، اگر آپ اپنا کام ایمانداری سے کرتے اور کسی پر احسان کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ کا بازو پکڑ کر آپ کو کامیابی کی معراج تک پہنچا دیتے۔ یاد رکھیں، ایک ہم ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔حسد کی آگ میں جل کر دوسروں کی گردنیں تن سے جدا کر دیتے ہیں۔اپنے سگے بھائیوں کے در پے ہو جاتے ہیں۔رزق کو بڑھانے کے ڈاکا ڈالتے ہیں۔راہزنی کرتے ہیں۔قتل کرتے ہیں۔ بم بلاسٹ کراتے ہیں۔ مالی، جسمانی، روحانی کرپشن کرتے ہیں۔غیر آئینی اور غیر اخلاقی زاویے اور رویے اختیار کرتے ہیں۔ہم ہر وہ ناجائز حربہ اختیار کرتے ہیں جو روپے پیسے اضافہ کرے مگر ندارد۔۔۔ہم سکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔ہم اپنے اللہ اور رسول محمدؐ سے دھوکہ کرتے ہیں۔اپنی آخرت خراب کرتے ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں۔یاد رکھیں اگر آپ سکون چاہتے ہیں۔امن چاہتے ہیں۔آخرت اچھی چاہتے ہیں۔رزق میں اضافہ چاہتے ہیں تو کسی کی ٹانگ مت کھینچیں۔حسد اوربغض سے ہاتھ کھینچ لیں۔تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔بقول خوبصورت شاعر پروفیسر محمود الحسن شاکر
گل زمیں تھی کبھی مشیت گاہ
اب بنایا اسے اذیت گاہ
نسلِ نو بٹ گئی ہے ٹکڑوں میں
یہ وطن تھا مری جمعیت گاہ