’’یہ عدالت ہے،اپنی آواز نیچی رکھیں‘‘،’’اپنے طریقے سے دلائل دوں گا‘‘

’’یہ عدالت ہے،اپنی آواز نیچی رکھیں‘‘،’’اپنے طریقے سے دلائل دوں گا‘‘
کیپشن: ’’یہ عدالت ہے،اپنی آواز نیچی رکھیں‘‘،’’اپنے طریقے سے دلائل دوں گا‘‘
سورس: file

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس میں کہا ہے تعلیم کے حصول کیلئے بیرون ملک بھیجی گئی رقم سے فلیٹ خریدنے پر کوئی ممانعت نہیں ۔رقوم کی منتقلی بینک کے ذریعے سے ہوئی ہنڈی کے ذریعے سے نہیں یہ اصل بات ہے۔سرینا عیسیٰ نے کہا وزیراعظم عمران خان آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے۔

  

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ نے صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت کی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا میرے خلاف کیس کو تاخیر کا شکار کرنے کیلئے متعدد بار مقدمہ ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہرحال جو ہوتا رہا اسے چھوڑ دیں، بائیس جون دو ہزار بیس کو وزیر قانون فروغ نسیم نے میری اہلیہ سے متعلق عدالت میں ایک بات کہی،فروغ نسیم نے کہا ہندومذہب میں  شوہر کے مر جانے کے بعد اہلیہ ستی ہو جاتی ہے، فروغ نسیم نے خواتین کی تضحیک کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ جو الزامات لگا رہے ہیں ہمیں انکو دیکھنا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ الزام نہیں بلکہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے،میری درخواست ہے کہ مجھے اپنے دلائل مکمل کرنے دیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے جہاں سے گزشتہ دلائل ختم کیے تھے وہیں سے دلائل کا آغاز کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہامیں اپنے طریقے سے دلائل دونگا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اپنی آواز کو نیچا رکھیں، یہ عدالت ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا دو سال سے میری گردن پر تلوار لٹک رہی ہے۔جسٹس مقبول باقر نے کہا ججز کے علاوہ اگر کسی نے کوئی بات کہی تو وہ غیر متعلقہ ہے اسے چھوڑ دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاغیر متعلقہ نہیں بلکہ اس کیس سے جڑی ہوئی ہیں،فروغ نسیم نے عدالت کے سامنے جھوٹ بولے۔فروغ نسیم عدالت میں جھوٹ بول کر جرم کے مرتکب ہوئے،فروغ نسیم نے طنز کیا کہ کیا سلائی مشین چلا کر اتنے پاؤنڈز کی پراپرٹی بنائی۔جسٹس قاضی امین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے فروغ نسیم کو تضحیک آمیز دلائل سے روکا۔ 

دوران سماعت عدالت نے رجسٹرار سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہلخانہ کے لندن جائیداوں سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوبارہ روسٹرم پر آ کر ایف بی آر رپورٹ خفیہ رکھنے پر اعتراض اٹھایا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایف بی آرچیئرمین نے میرے اہلخانہ کے اثاثوں کی رپورٹ فراہم نہیں کی۔

سرینا عیسیٰ نے کہا اکنامک ریفارمز ایکٹ میں بیرون ملک کرنسی اکاؤنٹ رکھنے والوں کو قانونی استثنا ہے،ایف بی آر حکام نے اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992کی کھلی خلاف ورزی کی، غیر ملکی بنک اکاؤنٹ رکھنے والوں کو بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ایف بی آر کے مطابق آپ نے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ باہر بھیجوایا تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کیا آپ نے ایف بی آر کی طرف سے عائد کردہ جرمانہ ادا کیا۔سرینا عیسیٰ نے کہا ہم نے جرمانہ ادا نہیں کیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا آپ نے ایف بی آر کے آرڈر کو چیلنج کیا۔

سرینا عیسیٰ نے جواب دیا جی ہم نے ایف بی آر آرڈر کو متعلقہ فورم پر چیلنج کر رکھا ہے،جب غیر ملکی جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت میرے بچے بالغ تھے۔ وزیراعظم عمران خان کیوں اپنی تین بیویوں اور تین بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کر رہا۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے۔ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیس فیصلے میں لکھا انکم ٹیکس شق 116مبہم ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا انکم ٹیکس قانون کی شق 116 کو مبہم قرار دینا آپ کے حق میں ہے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا میری 1982سے ٹیکس ادا کر رہی ہوں۔ کمرہ عدالت میں موجود ایسے کتنے افراد ہیں جو 1982سے ٹیکس دے رہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے سریناعیسیٰ نے مکالمے میں کہا ایف بی آر رپورٹ میں کہا گیا آپ کے بیان میں تضاد ہے، آپ کا موقف ہے کہ ایک بیرون ملک جائیداد آپ کی ہے،دیگر دو بیرون ملک جائیدادیں بچوں کی ہیں،ایف بی آر کہہ رہا ہے دیگر دو جائیدادوں میں آپ پچاس فیصد کی شیئر ہولڈر ہیں،اس سوال کا جواب ایف بی آر میں نہیں دیا گیا۔

سرینا عیسیٰ نے  جواب دیا کہ ایک بیرون ملک جائیداد میری ہے، باقی دو جائیدادوں میں میں شیئر ہولڈر ہوں،میں سو فیصد جواب دے چکی ہوں،میرا موقف کبھی نہیں بدلا،یہ بہت پرانا معاملہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا سوال سورس آف فنڈز کا ہے۔سرینا عیسیٰ نے کہا مرکزی کیس فیصلے میں 194مرتبہ میرا اور میرے بچوں کا تذکرہ کیا گیا، ہم تو مرکزی مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے،عوامی سطح پر ہمارے اہل خانہ کی تضحیک کی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا مرکزی مقدمے میں آپ کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے،آپ اگر مرکزی کیس کے ریکارڈ سے دلائل دیں تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے سریناعیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ اس کیس میں تھرڈ پارٹی ہیں، براہ راست آپ کا اس کیس سے تعلق نہیں،سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کا کنڈکٹ زیر بحث رہا۔

 جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست گزار تو سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا ہی نہیں چاہتے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہامیرے سپریم جوڈیشل کونسل میں نہ جانے سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے،مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس دیا لیکن مجھے مکمل دفاع کا حق نہیں دیا گیا، میں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں مجموعی طور پر پانچ جوابات جمع کرائے،میں جوڈیشل کونسل کی کارروائی ملتوی کرنے کیلئے التواء کی ایک درخواست بھی نہیں دی ،مہربانی فرمائیں، میری اہلیہ وکیل نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم کسی کو دلائل دینے سے روک نہیں رہے۔سریناعیسیٰ نے کہا میں نے مرکزی کیس کی ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے رجوع کیا،مجھے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کا ٹرانسکرپٹ اور ریکارڈ نہیں فراہم کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیس کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ فراہم کرنے کا تو عدالتی فیصلہ موجود تھا،ہم تسلیم کرتے ہیں آپ عدالتی کارروائی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوئیں،یہ کیس غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذریعہ آمدن کا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایف بی آر کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے، میری اہلیہ وکیل نہیں ان سے سوال نہ پوچھیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آپ مداخلت نہ کریں۔سرینا عیسی خود دلائل دے رہی ہیں تو سوال کے جواب بھی دیں گی۔سرینا عیسیٰ نے کہا بینک عملے نے فارم بھرے تھے میں نے صرف دستحط کیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پیسہ باہر جانا ثابت ہورہا ہے تو مقصد معنی نہیں رکھتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا پیسہ تعلیم کے لیے بھجوا کر فلیٹ خریدنا غیر قانونی نہیں؟۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اصل بات یہ ہے کہ پیسہ بینک کے ذریعے بھیجا گیا ہنڈی کے ذریعے نہیں، سارا پیسہ آپکا تھا تو بات ختم، بات ختم ہونے کا مطلب ہے کہ یہ نقطہ مکمل ہو گیا۔جسٹس عمر عطابندیال کی بات پر عدالت میں قہقےگونج اٹھے ۔سریناعیسیٰ نے  کہا کہ میرے فارن کرنسی اکاؤنٹ کو قانونی تحفظ حاصل تھا ۔کیس کی سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔